کسی پارٹی کا سربراہ کون ہونا چاہئے ، اس کا فیصلہ اسی پارٹی کے کارکن کیا کرتے ہیں ۔ یہ ان کا آئینی حق ہے مگر یہاںمعاملہ الٹ تھا۔
زیر بحث پارٹی کا نام ہے پاکستان مسلم لیگ ن ، مگر اس کے قائد کا فیصلہ دوسری سیاسی پارٹیاںکرنا چاہتی تھیں۔ یہ ایک طرفہ تماشہ تھا۔
جب ترکی میں فوجی انقلاب ناکام ہوا تو اس کی دو وجوہ تھیں، ایک صدراردوان نے آہنی عزم کا مظاہرہ کیا، دوسرے گوشت پوست کے انسان آہنی ٹینکوں سے ٹکرا گئے۔
پاکستان میں کہا گیا کہ یہاں اگر کبھی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوا تو اسے عوام کی طاقت سے ناکام بنایا جائے گا۔
میاںنواز شریف کو نااہل کیا گیا تو وہ جی ٹی روڈ پر نکلے، عوام کا سمندر ان کے ا ٓگے پیچھے ٹھاٹھیںمار رہا تھا۔مگر طاقت کا یہ مظاہرہ ان کے خلاف خطرات کا منہ نہ موڑ سکا۔ مائنس نواز شریف کا ایک فارمولہ سامنے آیا۔ میاںنواز شریف کو پارٹی قیادت سے ہٹانے کی سازشیں شروع ہو گئیں مگر نواز شریف نے اپنی سیاسی ا ور پارلیمانی چالیں صحیح چلیں اور وہ قانون ختم کرا دیا جو ان کا راستہ روک رہا تھا۔ اس کے لئے انہوںنے ایک آئینی ترمیم بڑی کامیابی سے کروا لی۔ اپوزیشن مگر ہار ماننے والی نہیں تھی اور وہ طاقتیں جو اپوزیشن کی پیٹھ ٹھونک رہی تھیں، وہ بھی کیسے ہار مانتیں، اپوزیشن کے ذریعے سینیٹ سے ایک آئینی ترمیم منظور کروا لی گئی جس کے ذریعے نواز شریف نااہلی کی وجہ سے پارٹی قیادت نہیںکر سکتے تھے، اس آئینی ترمیم کو قومی اسمبلی سے بھی منظور کروانا ضروری تھا۔ چنانچہ اس کے لئے گھمسان کا رن پڑا، منگل کی شام لوگوںنے ٹی وی اسکرینوں پر ایک ایسا ڈرامہ دیکھا جس میں کئی لیڈروں کے چہرے بے نقاب ہو گئے۔اپوزیشن کی طرف سے آئینی ترمیم کا بل نوید قمر نے پیش کیا تھا، انہیں اپنے بل کے حق میں بولنے کا حق حاصل تھا مگر تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود کاا صرار تھا کہ وہ بھی تقریر جھاڑنا چاہتے ہیں ، اسپیکر نے بار بار کہا کہ مخدوم صاحب، آپ بل کے محرک نہیں ہیں، آپ اس موقع پر نہیں بول سکتے، مگر مخدوم نے پانچ منٹ مانگے اور اٹھارہ منٹ دھواں دار تقریر کرتے رہے۔ اپوزیشن کی طرف سے مزید تقریریں بھی کی گئیں اور یوں لگ رہا تھا کہ اپوزیشن آج میدان مار لے گی مگر میں اس سے پہلے مخدوم شاہ محمود کے لب و لہجے کی بوکھلاہٹ سے اندازہ لگا چکا تھا کہ حکمران پارٹی نے اپنی مورچہ بندی مستحکم اور مضبوط طریقے سے کی ہے۔ اپوزیشن کے لئے ان مورچوں کو بلڈوز کرنا ممکن نہ تھا۔
کم و بیش دو گھنٹے تک عوام سانس روکے یہ معرکہ دیکھتے رہے، ایک طرف نواز شریف اور اس کی پارٹی تھی ا وردوسری طرف متحدہ اپوزیشن اور اس کے پس پردہ بے چہرہ طاقتیں۔ ایک نہیں کئی طاقتیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وزیر قانون زاہد حامد میں وہ کونسی خوبی ہے کہ ادھر مشرف کا ساتھ چھوڑا، ادھر مسلم لیگ ن نے قبول کر لیا۔ میری ان سے ملاقات وزیر خزانہ اسحق ڈار کے دفتر میں ہوئی تھی بلکہ وزیر خزانہ سے میری ملاقات کی وجہ سے وزیر قانون کو آدھ گھنٹہ انتظار میں بیٹھنا پڑا تھا۔ وزیر خزانہ نے میرا ان سے تعارف کرایا ، مجھے ان کی عاجزی پسند آئی، وہ شکوہ بھی کر سکتے تھے کہ انہیں انتظار میں کیوں بٹھائے رکھا، وہ مجھ سے ہاتھ ملانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ بھی کر سکتے تھے کہ میری وجہ سے ان کی سبکی ہوئی۔
گزشتہ روز میںنے ان کی پرفار منس دیکھی تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ا یسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔ وزیر قانون اعتماد سے سرشار تھے، وہ پر سکون تھے، اور ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بول رہے تھے، مگر انہوںنے کئی چہروں کو بے نقاب کر دیا، کئی چہروں کی اصلیت دکھا دی۔
میںنہیں جانتا تھا کہ مسلم لیگ ن صرف ووٹوںکی طاقت سے اس بل کو اور اس کے پیش کرنے والوں کو شکست دے سکتی ہے یا اس کے پاس دلیل ا ور منطق کی طاقت بھی ہے۔ وزیر قانون نے ثابت کر دیا کہ وہ اپوزیشن کو دلیل کی طاقت سے چاروں شانے چت کر سکتے ہیں۔
دیکھئے انہوںنے کیا کہا:
ایوب خان پہلا فوجی آمر تھا جس نے مخصوص لوگوں کو سیا ست سے باہر کرنے کے لئے قانون بنایا، اور جنرل مشرف دوسرا فوجی آمر تھا جس نے میاںنواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیاست اور الیکشن سے باہر رکھنے کے لئے قانون سازی کی۔بھٹو وہ جمہوری منتخب وزیر اعظم ہے جس نے ایوب خان کے قانون کو ختم کیا۔آج بھٹو کی پارٹی ہی ایوب خان اور مشرف کا یہ کالا قانون واپس لانا چاہتی ہے۔
زاہد حامد کے ترکش میں ابھی کئی اور تیر بھی تھے، انہوںنے کہا:
تین سال قبل جب ملک میں نہ کوئی پانامہ کا مسئلہ تھا ۔ نہ کسی کی اہلیت یا نااہلیت کا مسئلہ درپیش تھا تو پارلیمنٹ نے دستوری ترامیم کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کی ایک سب کمیٹی نے متفقہ طور پر رائے دی کہ مشرف کی پابندی کو حذف کر دیا جائے۔ پھر اسے پارلیمنٹ میںمنظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ جہاں سے ایوان نے بھی اتفا ق رائے سے سبھی ترامیم کی منظوری دے دی۔
سب کمیٹی میں آج کے بل کے محرک نوید قمر بھی شامل تھے۔،انہی کی پارٹی کی شازیہ مری بھی تھیں اور ڈاکٹر عارف علوی بھی تھے ۔سب کمیٹی، کمیٹی، قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کسی نے بھی کسی بھی مرحلے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔تو آج انہیں اپنے بل کو پیش کرنے کی ضرورت کیا آن پڑی ہے۔
بل کا فیصلہ رائے شماری سے ہونا تھا۔ سپیکر نے ہاں یا ناں کے ذریعے رائے دینے کےلئے کہاا ور فیصلہ سنایا کہ ناں کے ووٹ زیادہ ہیں، فوری طور پر نوید قمر نے اس گنتی کو مسترد کر دیا اور ڈویژن کا مطالبہ کیا، ایک پرانے پارلیمنٹرین کی حیثیت سے نوید قمر کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ بل کی منظوری یا عدم منظوری کے لئے ڈویژن کا اصول رائج نہیں ہو سکتاچنانچہ سپیکر نے ہاں اور ناں والوں پر باری باری اپنی سیٹوں پر کھڑے ہونے کے لئے کہاا وراسمبلی اسٹاف نے ان کی گنتی کی تو سپیکر کا سابقہ فیصلہ درست قرار پایا، اپوزیشن کو صرف اٹھانوے ووٹ ملے تھے اور حکمران پارٹی نے ایک سو تریسٹھ ووٹ حاصل کئے۔
متحدہ اپوزیشن کف افسوس ملتی رہ گئی اور پارلیمنٹ کی سیٹوں پر نظر دوڑانے والے لوگ حیران تھے کہ میر ظفر اللہ جمالی نے کس طرح بل کی حمایت کر دی، اس کی وجہ سمجھ سے باہر نہیں ہے، جمالی صاحب ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا کے وزیر رہ چکے ہیں اور پھر ایک ا ور فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے وزیر اعظم، ان کے اندر کی آمرانہ محبت نے جوش مارا اور وہ بل کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔
عوام کو دوسری حیرت اس بات پرہوئی کہ جمہوریت کے لئے چیخ و پکار کرنے والے عمران خان ، اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر کیوں تھے، کیا یہ ہے ان کی پارلیمانی جمہوریت سے محبت کا ثبوت یا انہیں بھی جنرل مشرف یادا ٓ گیا جس کے ریفرنڈم میں اس نے جوش و خروش سے کردار ادا کیا تھا۔
ہر جنگ کی ایک حکمت عملی ہوتی ہے۔
اپوزیشن کو یقین دلایا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر بڑی تعداد میں اجلاس سے غیر حاضر رہیں گے۔
مسلم لیگ ن کی کوشش یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ارکان کو لایا جائے۔ یہ حکمت عملی ا س قدر کامیاب رہی کہ نوید قمر، شازیہ مری، شاہ محمود قریشی ا ور عارف علوی کے لہجے پر بوکھلاہٹ طاری تھی ا ور گیلری میں بیٹھے ہوئے تماشائیوں کو نتیجے کا قبل از وقت اندازہ ہو گیا تھا۔میں تو گیلری میں نہیں تھا لیکن شاہ محمود قریشی کی بوکھلاہٹ دیکھ کر میںنے دو اخباری دوستوں کو فون کیا کہ اپوزیشن کو شکست کا خوف لاحق ہے۔
مائنس نواز شریف فارمولہ بھی ہار گیا تھا۔ اس کے پیچھے کارفرما قوتیں بھی ہار گئی تھیں۔
میاںنواز شریف نے آہنی عزم کے ساتھ اپوزیشن کا مقابلہ کیا اور اسے شکست فاش سے دو چار کیا۔
اپوزیشن کئی ہفتوں تک اپنے زخم چاٹتی رہے گی ، اب اس کی آخری امید پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہے مگر نواز شریف بھی فولادی عزم کے مالک ہیں ، ان کے ساتھی بھی ترکی ماڈل پر عمل کرتے ہوئے ہر طاقت سے ٹکرا جانے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔
ترکی میں عوام فولادی ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے ا ور جمہوریت کو بچا لیا تھا۔ صدر اردوان کو بھی بچا لیا تھا۔ پاکستان میں ابھی تک عوام کی طاقت کا کسی کو ڈر خوف نہیں ہے،مگر اس کی ہلکی سی جھلک وہ عوام کے نمائندوں کے ڈٹ جانے کی شکل میں دیکھ چکے ہیں ۔
میاںنواز شریف خوش قسمت ہیں، اب وہ نہیں کہہ سکتے کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا ، اب انکے ساتھ پونے دو سو پارلیمنٹرین کھڑے ہیں اور ان کے حلقوں کی عوامی طاقت بھی ان کے لئے ناقابل تسخیر فصیل بنی کھڑی ہے۔
٭٭٭٭٭