ڈولفن کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک خوبصورت انسانوں سے جلد مانوس ہونے والی بڑی سی خوبصورت مچھلی کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو اپنے ٹرینی کے ساتھ مل کر بے حد دلچسپ کر تب دکھا کر لوگوں کا دل مو لیتی ہے۔ سمندری مخلوق میں یہ سب سے زیادہ ذہین اور ایک دوسرے کی مدد کرنے والی مخلوق ہے۔ خشکی پر جس طرح (بندر) چیمپینزی کو انسان کو قریب ترین اور کتے کو وفادار ترین جانور سمجھا جاتا ہے آبی مخلوق میں ڈولفن میں وفاداری اور انسانی نفسیات کو سمجھنے کی صلاحیتیں سب سے زیادہ ہے۔ جس طرح خطرات میں گھرے ہوئے سمندر میں خطرناک شارکوں کے درمیان یہ انسان دوست ڈولفن خوش و خرم ماحول بنا کر جیتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں حکومت پنجاب نے نئی پولیس فورس ’’ڈولفن‘‘ کے نام سے بنائی ہے۔ جرائم کی شارکوں کے درمیان اس فورس کا قیام صوبے میں امن و تحفظ اور عوام کو پر سکون زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے لایا گیا ہے۔ چاق و چوبند لش پش کرتی وردی میں ملبوس یہ نوجوان حقیقت میں پنجاب پولیس کی آن بان اور شان دکھائی دیتے ہیں۔ ڈولفن کی طرح ٹریفک کے اژدھام میں یہ ہیوی بائیکس پہ سوار جوان جب گشت کرتے ہیں تو ان کو دیکھ کر عوام الناس کے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔
اس وقت اس ڈولفن فورس کو خاص طور پر صرف سٹریٹ کرائم پر نظر رکھنے اور کنٹرول کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ فی الحال یہ انکی ابتدا ہے اور ان کی نفری بھی کم ہے اس وقت یہ فورس چند مخصوص علاقوں یا مقامات جن میں سٹی، سول لائن، ماڈل ٹائون، کینٹ، صدر اور اقبال ٹائون شامل ہے متحرک نظر آتی ہے۔ اب جلد ہی دو ڈھائی سو کے قریب جوان جنکی تربیت مکمل ہو چکی ہے اس میں شامل ہو جائیں گے تو اس کا دائرکار پورے لاہور تک پھیلا دیا جائے گا۔ ہم نے بھی عوام الناس کی طرح ڈولفنز کو صرف سڑکوں پر گشت کرتے دیکھا تھا اور ان کی برق رفتاری اور تیز سواری پر دل ہی دل میں عش عش کر اٹھتے تھے۔ گزشتہ روز اپنے ایک ہمدم دیرینہ جو خود بھی وردی والے ہیں کی فرمائش پر ایک نجی تقریب میں شرکت کرنے پہنچا تو وہاں ڈولفن کے سمارٹ ایس ایس پی فیصل شہزاد کو بھی موجود دیکھا۔ وہ اس وقت دوسرے احباب کے گھیرے میں تھے جب فارغ ہوئے تو علیک سلیک کا موقعہ ملا ان سے تو شناسائی نہ تھی مگر جب بات چیت کا دور چلا تو یوں لگا جیسے برسوں سے راہ رسم ہے۔ باتوں باتوں میں جب ان سے ڈولفن فورس کے بارے میں بات ہوئی تو گویا ’’دبستاں کھل گیا‘‘ پولیس کی روایتی رعب داب سے بے نیاز ایک عوام دوست شخص بولتا نظر آیا۔ انہوں نے جب روانی سے اپنے ادارے کی ترجمانی کی اسکی کارکردگی گنوائی۔ یوں لگا جیسے کسی ان دیکھے کمپیوٹر سے وہ اعدادو شمار بتا بتا کر ہمارے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈولفن فورس کی 19 ماہ کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ سٹریٹ کرائم پر قابو پانے اور گشت کر کے قانون کی عملدآری یقینی بنانے کے لئے قائم کی گئی اس فورس نے اپنے زیر نگرانی علاقوں میں اپنی 130 ٹیموں کی مدد سے صرف پٹرولنگ میں 84 ہزارو وہیلکز 99 ہزار موٹر سائیکلوں اور 94 ہزار اشخاص کو چیک کیا۔ 120 سٹریٹ کریمنلز کو پکڑا 143 چوری شدہ کاریں۔ 191 موٹر سائیکلیں برآمد کیں۔ 11 ہزار سے زیادہ بلاک ٹریفک کھلوا کر کنٹرول کیں۔ 70 گمشدہ بچوں کو والدین سے ملوایا۔ 12 سو سے زیادہ روڈ ایکسڈنٹ میں مدد کے لئے بروقت پہنچے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پٹرولنگ ریسکیو 15 کی 25 ہزار سے زیادہ کالوں میں فوری طور پر مدد کو پہنچے۔ یہ عوامی خدمت کا ایک نیا منفرد اور اچھوتا انداز ہے۔ وہ بولتے جارہے تھے اور میں سنتا جارہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈکیتی، قتل، چوری گھریلو جھگڑے، دنگا فساد، لڑائی مارپیٹ ہمارے دائرہ کار میں نہیں مگر جہاں بھی ڈولفنز کو ایسی کسی واردات میں پکارا گیا وہ وہاں پہنچی۔ بزرگوں کو سڑک پار کرانے سے لے کر کھوئی ہوئی اشیاء اٹھا کر مالکان تک پہنچانے کے سمیت کئی ایسے عوامی خدمات ہیں جو ڈولفنز از خود احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو پولیس کا یہ نیا چہرہ نیا انداز پسند آئے اور پویس پر جو روایتی تھانہ کلچر کی مہر لگی ہے وہ مٹ سکے۔ انہوں نے باقاعدہ ریکارڈ کا حوالہ دے کر بتایا کہ جن علاقوں میں ڈولفنز کی ڈیوٹیاں لگی ہیں وہاں جرائم کی شرح میں 30 فی صدتک کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ ایک نوجوان پولیس افسر کا یہ نیا انداز گفتگو خدمت کا جذبہ دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں سے اچھی شروعات ہو رہی ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ہر شخص کا مکمل بائیو ڈیٹا کمپیوٹر پر محفوظ ہے جس سے چند منٹوں میں کسی بھی ملزم یا مجرم کا ریکارڈ سامنے آتا ہے۔ تو مجھے احساس ہوا کہ اب پولیس کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر اگر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کردیا جائے تو تھانہ کلچر میں تبدیلی کا وہ خواب جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے دیکھا ہے جلد پورا ہوسکتا ہے۔ اس وقت ان کی قیادت میں پنجاب تبدیلی کے جس سفر میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اسکا اندازہ ڈولفنز کی کارکردگی دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 30 نومبر کو انکی پاسنگ آئوٹ پریڈ بھی ہے جسکے بعد انکی نفری مزید بڑھے گی۔ اور یہ فورس عملی طور پر اپنے کام کا آغاز کرے گی۔ خدا کرے یہ فورس اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ کیونکہ پولیس کے حوالے سے تمام تر رعایتوں کے باوجود عوام الناس کا تجربہ تلخ ہی رہا ہے۔ لوگ ابھی تک اپنے جائز کاموں کے لئے تھانوں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں۔ پولیس پر ابھی تک جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام دھرا رہتا ہے۔ سائلین کے ساتھ خاص طور پر مجبور بے بس غریب اور لاچار لوگوں کے ساتھ پولیس کا رویہ خاصہ تلخ اور ناروا ہے۔ اگر دیکھنا ہے ڈولفن فورس اس عمل میں رویہ میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا ٹریفک وارڈنز کی طرح چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات والی مثال ہمارا منہ چڑھاتی نظر آتی ہے۔
حکومت پنجاب کی کوشش ہے کہ پولیس کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے۔ تو پولیس کا فرض ہے کہ وہ عوام کو احترام دے ان کی جائز مشکلات کا مداوا کرے اگر پولیس ایسا کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کے ذہنوں اور دلوں میں پولیس کا اچھا امیج جگہ نہ بنا سکے۔