چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے پنجاب اوورسیز کمشن کو جائیدادوں کے دیوانی اور فوجداری مقدمات سے روکتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمشن اپنی قانونی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ تقسیم وراثت اور ملکیت کے زیرالتواء مقدمات کی موجودگی میں قبضے کروانا اورچھڑوانا کمشن کا کام نہیں۔ کوئی دوسرا سرکاری محکمہ عدالتی کام نہیں کر سکتا۔ فاضل جج نے یہ فیصلہ شجاع الرحمن سمیت متعدد شہریوں کی گیارہ درخواستیں منظورکرتے ہوئے سنایا اور درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ پنجاب اوورسیز کمشن اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے شہریوں کی جائیدادوں کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ کمشن کی طرف سے ایسے تنازعات میں مداخلت کی جا رہی ہے جن کی جائیدادوں کی تقسیم وراثت‘ ملکیت یا دیگر نوعیت کے دیوانی یا فوجداری مقدمات عدالتوں میں زیرالتواہیں۔ اوورسیز کمشن کے افسران پولیس کے ہمراہ کسی بھی شکایت پر دوسرے فریق کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور گن پوائنٹ پر گھر یا جائیداد خالی کروا رہے ہیں۔ عدالت نے تفصیلی دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ اوورسیز کمشن بلا ثبوت شہریوں کو ہراساں کرنا اور دھمکانا بند کرے۔ جو کام عدالت کا ہے‘ وہ کوئی سرکاری محکمہ کیسے کر سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ تفصیلی فیصلے میں پنجاب اوورسیزکمشن کی حدود کا تعین بھی کر دیا جائے گا۔ جناب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کا پنجاب اوورسیز کمشن کے خلاف پٹیشنرز کی درخواستوںکا منظور کرنا ایک خوش آئند بات ہے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات جس میں تقسیم وراثت اور ملکیت کے زیرالتوا مقدمات کی موجودگی میں قبضے کروانا اور چھڑوانا نہ صرف پنجاب اوورسیز کمشن مداخلت کرتا ہے بلکہ محکمہ پولیس سے مقدمات کا آغاز کرانے میں بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بے بنیاد کاغذات کی بنیاد پر ان ملازمین جو ان کی عدم موجودگی میں ان کے کاروبار کو چلا رہے ہیں پر ایف آئی آر درج کرانے تک پنجاب اوورسیز کمشن‘ پولیس کے اعلیٰ حکام سے پریشر ڈلوا کر جھوٹی‘ بے بنیاد ایف آئی آر درج کرانے سے دریغ نہیں کرتا اور خواہ مخواہ ملازمین کیلئے باعث پریشانی بنتا ہے۔ اس پر آسانی سے ان ملازمین کے خاندان اور ان کے بال بچوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اپنے ملک سے باہر رہنے اور وہاں کام کرنے کی آڑ میں اور اس کا سہارا لیکر یہاں کے پاکستانی فیکٹری ملازمین کو محکمہ پولیس سے دھمکی دلانا‘ حوالات میں بند کرانا اور مقدمہ کی دھمکیاں دینا تو ایک معمول کی بات ہے۔ اس کا بھی ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔جوبھی باہر سے آتا ہے‘ سیدھا پنجاب اوورسیز کمشن کے دفتر جاتا ہے اور وہاں سے من پسند احکام لیکر یہاں تک کہ فیکٹری ملازمین کو مہینوں بلکہ کئی کئی سال تک مقدمات میں لٹکاتے رکھتے ہیں۔
ایف آئی آر درج کرانے کے بعد مصدقہ ثبوتوں کا پیش نہ کرنا اور متعلقہ پولیس اسٹیشن پر حاضر ہونے کی بجائے سیدھے ڈی آئی جی پولیس کے پاس پیش ہونا تو معمول کی بات ہے اس طرح ملازمین کو پولیس کے دبائو میں لانے کی کوشش افسوسناک ہے۔ اس سے کام نکلوانے کیلئے جائز ناجائز ہر حربہ استعمال کرنے کا تاثر ملتا ہے۔ وہ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ لاقانونیت اور کیا ہوگی؟ اور انصاف کہاں دفن ہوگیا ہے؟
اگر خدانخواستہ کوئی اوورسیز معذور ہو تو اسکی تو چاندی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ان میں بیشتر افرادنفسیاتی مریض ہوتے ہیں جن کو دوسروں کو ذہنی اذیت دینے سے، ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ اپنی وہیل چیئرمیں بیٹھے۔ پہلے پنجاب اوورسیز کمیشن آفس جاتے ہیں۔ وہاں سے سفارش کرو کر پولیس کے اعلیٰ آفیسر کے پاس جا پہنچتے ہیں۔ ایسے میں یہ وہیل چیئر ان کیلئے ہتھیار کا کام دیتی ہے۔ذرا سا بھی دردِ دل رکھنے والا انسان معذور شخص کودیکھ کر فوراً نرم پڑجاتا ہے۔ پہلا تاثر جو اسے ملتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ یہ ’’بیچارہ‘‘ معذور تو یقینا مظلوم ہے۔ خواہ وہ کتنا ہی جھوٹا اور ظالم کیوں نہ ہو! مجھے یہاں پر حضرت موسیٰ ؑ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک دفعہ کسی دریا کے کنارے وہ کچھ نوجوانوں کو پانی میں نہاتے ہوئے دیکھ رہے تھے، اُن میں سے ایک نوجوان نابینا تھا۔ اس کا ساتھی ہر بینا نوجوان اُس کو پکڑ کر پانی میں ڈُبکی دے کر نکال لیتا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کو ترس آیا۔ جب اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تو عرض کیا۔ یااللہ! یہ کیا معاملہ ہے؟ تُو اس بصارت سے محروم نوجوان کو بھی، بِینا بنا دے تاکہ وہ بھی باقی نوجوانوں کے ساتھ مل کر پانی میں کھیل سکے۔ اللہ کے پیغمبرکی دُعا قبول ہوئی۔ بصارت سے محروم نوجوان کی بینائی بحال ہو گئی۔
دوبارہ حضرت موسیٰ ؑ نے دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ نیا بینا نوجوان، جس دوسرے بِینا نوجوان کو پکڑتا۔ جب تک اس کی سانس کی ڈوری ختم نہ ہوجاتی۔ وہ اس کو پانی کے اندر ہی ڈبوئے رکھتا۔ بالآخر سب کو ختم کردیا دوبارہ حضرت موسیٰ ؑ کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی تو عرض کی۔ اے اللہ! توہی ساری حکمتوں سے واقف ہے کہ کس کو، کس حال میں رکھنا ہے۔ یہ تو ایک ادنیٰ سی مثال ہے ایسی مثالوں سے ساری دنیا بھری پڑی ہے۔
بہرحال انتظامیہ کی ایسے تمام امور میں بے جا مداخلت میں حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جو ان کے دائرہ کار اور فرائض میں شامل نہیں۔ لہٰذا جناب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ صاحب سے التماس ہے کہ تفصیلی فیصلہ تحریر کرتے ہوئے ان تمام امو رکو پیش نظر ضرور رکھیں۔ ایک انگریزی محاورہ ہے: "Appearances are often deceptive"۔ بہرکیف انصاف ہر ایک کو ملنا چاہیے خواہ بینا ہو یا نابینا‘ اپاہج ہو یا کوئی معذوری ہو۔
اللہ تعالیٰ کی حکمتیں۔ اللہ تعالیٰ ہی جانیں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے دُعا گو ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین!