احتجاج کا طریقۂ کار مبنی بر انصاف ہوناچاہئے

Nov 23, 2017

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

کون درد مند اور صاحب ایمان پاکستانی ہو گا جو مولانا خادم حسین رضوی اور ان کے رفقاء کے اصولی موقف کا پاسدار نہ ہو۔ تحریک ختم نبوت ایک مسلسل ایمانی جدوجہد کا نام ہے‘ جس کو اب تحریک لبیک یا رسول اﷲؐ کہا جا رہا ہے‘ نام کچھ بھی ہو‘ اس ایمانی و ایقانی تگ و دو کو ساری پاکستانی قوم سلام پیش کرتی ہے‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر اور اس سے پہلے بھی آج تک کوئی حکمران اس کا مخالف نہیں رہا۔ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ تا چودھری محمد علی اور پھر آمروں کی یلغار تک پوری پاکستانی قوم ختم نبوت کے نام پر یک زبان رہی ہے‘ ہر فرقہ‘ ہر مسلک اور ہر مکتبہ فکر کے علماء ہاتھوں میں ہاتھ دے کر تحریک ختم نبوت پر متفق و متحد رہے ہیں‘ اس ضمن میں صرف ایک گڑبڑ ضرور ہوتی رہی ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ اور سیکولر اذہان کے مالک دانشور ٹولے کی جانب سے اس معاملے میں ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ آج بھی یہی معاملہ کھل کر سامنے آیا ہے‘ جس پر تحریک لبیک یا رسول اﷲؐ کے قائدین اور کارکنان بلاشبہ راست موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ ملک بھر کے صالح اور دیانتدار کلمہ گو مسلمان ان کے موقف کو سو فیصد مبنی برحق قرار دیتے ہیں لیکن اس مقصد کے حصول کی خاطر مولانا خادم حسین رضوی اور ان کے کارکنان جو طریقۂ کار اپنائے ہوئے ہیں ‘ اسے ببانگ دہل غلط اور نا درست سمجھتے ہیں۔ ان درد مند پاکستانیوں کا کہنا یہ ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اﷲؐ والے ختم نبوت پر چھپ چھپا کر (نعوذباﷲ) حملہ کرنے والوں کے بجائے فیض آباد پل کے نیچے دھرنا دے کر جڑواں شہروں کے لاکھوں نہتے ‘ بے قصور اور کلمہ گو شہریوں کا گلہ دبوچ بیٹھے ہیں‘ جو شرعاً اور اخلاقاً ناجائز ہے۔ اسلامی شریعت اور قانون و اخلاق میں جو جرم کرے اسے سزا ملتی ہے لیکن یہاں جرم کا ارتکاب کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ ان کے بجائے لاکھوں نہتے شہریوں کو سخت ترین سزا دی جا رہی ہے۔ یہ طرز عمل کیا ہے‘ یقیناً دہشت گردوں کا طریقۂ کار بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے بے گناہ عورتوں‘ بچوں‘ راہگیروں اور لا تعلق لوگوں کو ہدف بنا لیتے ہیں اس طرح تو کسی بھی تحریک یا جدوجہد کے پس منظر میں کارفرما نیک اور مقدس مقاصد بھی ماند پڑجاتے ہیں اور ہر کوئی اس روش کو اختیار کرنے والے مذہبی گروہ پر تنقید کرنا شروع کر دیتا ہے۔

یقیناً ختم نبوت کی قانون سازی کرتے ہوئے حکومت کے بعض کارپرداز مجرمانہ واردات کے مرتکب ہوئے‘ حکومت اگر خود ان لوگوں کو منظر عام پر لے آتی اور قرار واقعی سزا دیتی تو شاید احتجاج کی نوبت ہی نہ آتی‘ لیکن یہ کیا کہ حلف کو تبدیل کر دیا گیا اور مرتکب شخص یا شخصیات تاحال پردے میں ہیں۔ تحریک لبیک یا رسول اﷲؐ کے قائدین اور کارکنان کا یہ مطالبہ سراسر مبنی بر حقیقت اور صائب ہے لیکن کاش وہ اس کے لئے جدوجہد کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے ہوش مندی کا ثبوت دیتے ‘ اگر مسجد میں کوئی ایک شخص بے حرمتی کا مرتکب ہو تو یہ امر کہاں تک صائب ہے کہ مسجد کے سارے نمازیوں کے ہاتھ باندھ کر انہیں ناکردہ گناہ میں قرار واقعی سزا دے دی جائے۔ آخر ختم نبوت کے قانون میں گڑبڑ کرنے والوں کو کون پکڑے گا ؟ حکومت ان کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے اور احتجاجی انہیں سزا دینے کے بجائے لاکھوں نہتے شہریوں کے راستے بند کئے بیٹھے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے ؟ کون کہے گا یہ حق بجانب طریقہ کار ہے؟ بچے تعلیمی اداروں میں نہیں پہنچ رہے ‘ مسافر اپنی منزلوں سے بھٹک گئے ہیں۔ مریض ہسپتال پہنچنے کے بجائے سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ کیا ان سب لوگوں نے ہی ختم نبوت کے قانون میں مجرمانہ ترمیم کی ہے ؟ درست طریقۂ کار تو یہ تھا کہ احتجاجی اور مظاہرین پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر لیتے‘ جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں انکا ناطقہ بند کردیتے‘ ذرا زیرو پوائنٹ سے آگے کا رخ بھی کرتے اور دیکھتے کہ حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ لیکن انہوںنے یہ سب کچھ کرنے کے بجائے نہتے شہریوں کو محبوس کر دیا ہے۔ کیا یہ دانش مندی ہے‘ انصاف ہے ؟
سارے معاملے کو کرید کر دیکھیں تو متشدد مذہبی حلقوں نے ہی ہمیشہ الحاد پرستوں اور سیکولر اذہان کو پنپنے کا موقع دیا ہے۔ پاکستان دشمنوں کی زبانیں گز گز لمبی انہی لوگوں نے کی ہیں‘ اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی ساری سزا راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ملتی ہے ‘ جو پاکستان کی نظریاتی اساس میں روح اسلام اور ختم نبوت کے عناصر واضح طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کون کہتا ہے پاکستان کے قیام کے مقاصد اسلام اور اس کے حقیقی تقاضوں سے مربوط نہیں تھے؟ اس معاملے میں مغالطے اور شکوک پیداکرنے کے لئے ملک گیر سطح پر پھیلے ہوئے سیکولر عناصر ہی کافی ہیں لیکن اب دینی و مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے لائحہ عمل کے مطابق راستے الگ الگ کر کے من پسند طریقۂ ہائے کار اختیار کر لئے ہیں‘ اس طرح ملک خداداد پاکستان میں اسلامی پوٹنشل اور اقدار کو دھچکا لگ رہا ہے‘ خدا کے لئے کوئی اٹھے جو اس صورت حالات میں اصلاح احوال کرے‘ اگر آج ایسا نہ ہوا تو کل یہاں اسلام کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں الاپی جائیں گی‘ پھر حالات صرف ان زور آوروںکے کنٹرول میں ہونگے جو ناموس رسالتؐ اور ختم نبوت کے سارے معاملات بزور بازو یکسو کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کے دینی و اسلامی اذہان سیکولر پسندوں اور الحاد کی باتیں کرنے والوں کا نظریاتی طور پر محاسبہ کریں‘ انہیں ایسے مواقع فراہم نہ کریں‘ جس کے تحت وہ اپنے عزائم پورا کرنے کی راہ پر چل نکلیں۔ ختم نبوت تو اساسی نظریہ ہے‘ جسے کوئی بھی شرپسند گڈمڈ نہیں کر سکتا‘ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سمیت نظریاتی طور پر دو قومی نظریے اور اسلامیوں کے تحفظ کے ہر فارمولے کیخلاف کام کرنے والوں کی آج کمی نہیں۔ ہر سو میٹھی زبان میں نوجوان نسل کو ورغلایا جا رہا ہے‘ اس مقصد کے حصول کی خاطر مغالطے اور شکوک پیدا کرنا پہلی منفی حکمت عملی ہے‘ جو یہ لوگ اختیا کر رہے ہیں۔ علماء کرام اور مذہبی حلقوں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے اور جدوجہد کرتے ہوئے اگر کبھی احتجاج کا موقع آ جائے تو طریقہ کار حق بجانب اختیار کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ کوئی کام ایسا نہ کیا جائے جو بادی النظر میں اسلامی شعار اور اقدار کے منافی ہو۔
مولانا خادم حسین رضوی کی میرے دل میں قدر و منزلت اس سبب سے بھی ہے وہ اقبالیات کی روح سے آشنا ہیں اور اقبالؒ کا مطالعہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ بہت توفیق والے عالم دین ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو وہ خود اپنے ساتھ براجمان علماء کرام کی گفتار کو شائستہ اور باادب بنا سکیں‘ دشنام طرازی سے ان کی اپنی تحریک کو ازحد نقصان پہنچ رہا ہے‘ اولیا کرام کا نام لینے والوں کا شعار بہت بلند اور اعلیٰ ہوتا ہے‘ بھرے مجمع میں جو اﷲ اور اس کے رسولؐ کا نام پوری جذباتی قوت سے لے رہے ہوں ان کی زبان سے گالیاں اور مغلظات بہت کراہت کا سبب بنتے ہیں‘ پھر دھرنے کے نام پر احتجاج کے طریقہ کار پر بھی غور کرناچاہئے‘ تقسیم سے پہلے دھرنا اور مرن برت ہندو لیڈر شپ کا شعار تھا‘ بانیٔ پاکستان اور ان کے رفقاء نے کبھی دھرنا دیا اور نہ ہی مرن برت رکھا ‘ یہ سب کچھ گاندھی اور ان کے ساتھی کیا کرتے تھے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا دینی و اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو دھرنا سیاست کو اس طرح رواج دینا چاہئے‘ جسے ہندو لیڈر شپ قیام پاکستان سے پہلے روا رکھے ہوئے تھی۔ یہ ایک سوال ہے‘ جس پر غور و خوض کرنا ہر اسلامی روایت اور شعار سے بندھے ہوئے پاکستانی کا فرض ہے۔ علماء کرام کو اپنی روایتوں اور شعار کا پاس کرنے کیلئے ہر لحظہ احتساب عمل کی بھی ضرورت ہے‘ اگر ایسا نہ ہوا تو کل کلاں اس ملک خداداد میں دینی و سیاسی لیڈر تا مرگ بھوک ہڑتال کرتے ہوئے بھی نظر آئیں گے۔

مزیدخبریں