اسلام آباد/ راولپنڈی (اسٹاف رپورٹر+ بی بی سی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) فیض آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ پاکستان کے زیر اہتمام دھرنے کے شرکاء اور وفاقی پولیس میں تصادم کے دوران ایس پی صدر ڈویژن عامر نیازی سمیت سات پولیس اہلکار اور چار ایف سی اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔ 25 کارکن بھی گرفتار کرلئے گئے۔ پولیس اور کارکنوں میں اس تصادم کے بعد اضافی نفری بھی طلب کرلی گئی۔ تصادم کے دوران فیض آباد انٹر چینج کے سامنے اسلام آباد ایکسپریس وے اور آئی ایٹ کی جانب زبردست پتھرائو سے علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے لاٹھی کردیا جس سے کئی مظاہرین بھی زخمی ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے الزام لگایا کہ بدھ کی سہ پہر فیض آباد میں دھرنے کے سٹیج سے تقاریر کے دوران اچانک مشتعل ہوکر دو اڑھائی سو کارکنوں نے آئی ایٹ کی جانب کھڑی پولیس کی ریزرو پر دھاوا بول دیا اور انہیں اٹھا کر سٹیج کی جانب لے جانے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے کارکنوں کو پکڑنے کی کوشش کی جبکہ کارکنوں نے پولیس پر شدید پتھرائو شروع کردیا جس سے ایس پی صدر ڈویژن عامر نیازی، ہیڈ کانسٹیبل محمد عارف، کانسٹیبلان پرویز خالد، فیاض، اقبال شاہ اور طلعت اعجاز جبکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے آفاق شاہ، عبداللہ، شہزاد اور غفار زخمی ہوگئے جنہیں طبی امداد کیلئے ہسپتال پہنچایا گیا۔ ایک پولیس اہلکار کی ٹانگ فریکچر ہوگئی۔ ایس ایس پی آپریشنز ساجد کیانی نے بتایا کہ دھرنے کے گرد ہماری فورس شرکائے دھرنا کی سکیورٹی ڈیوٹی بھی انجام دے رہی ہے کسی آپریشن کا فیصلہ حکومتی سطح پر ہونا ہے، آج بھی پولیس اپنی معمول کی ڈیوٹی دے رہی تھی کہ اچانک دھرنے کے شرکاء کے ایک گروپ نے پولیس پر پتھرائو شروع کردیا۔ پولیس نے25 کارکن گرفتار کرلئے ہیں جن کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ ادھر پولیس نے بتایا کہ دھرنے کی قیادت سمیت اڑھائی سو کارکنوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے واضح کیا ہے کہ جب تک راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ ہمیں نہیں ملتی تحریک اپنے موقف پر قائم ہے کیونکہ خود راجہ ظفرالحق اور حکومتی وزرا نے ہمیں کہا تھا کہ کمیٹی کی رپورٹ مکمل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ تحریک لبیک پہلے ہی حکومت کو ایک حتمی ڈرافٹ ارسال کر چکی ہے۔ تحریک لبیک کی مجلس شوریٰ کا اجلاس فیض آباد میں بدھ کو تحریک کے امیر علامہ حافظ خادم حسین رضوی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں تحریک کے کارکنوں پر تشدد کرنے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ پولیس نے سیکٹر آئی ایٹ کی ایک مسجد کو کنٹینر رکھ کر بند کرنے کی کوشش کی جہاں تحریک کے کارکن وضو کیلئے جا رہے تھے، پولیس نے کارکنوں پر تشدد کیا جس سے سات کارکن زخمی ہوئے جن میں سے ایک کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ پولیس نے 35 کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔ تحریک کے اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت ایک طرف مذاکرات کر رہی ہے دوسری طرف تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ لبیک یارسول اللہ کے سربراہ خادم حسین رضوی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ فوج انہیں ہٹانے کے لئے نہیں آئے گی کیونکہ وہ ان ہی کا مئوقف مضبوط کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔‘ بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ان سے پوچھا گیا کہ اب تک نہ تو حکومت اور نہ ہی عدلیہ کے کہنے پر انہوں نے دھرنا ختم کیا ہے لیکن فوج اگر انہیں دھرنا ختم کرنے کا حکم دیتی ہے یا کہتی ہے تو ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ اس پر خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ فوج تو کہے گی کہ ’آرمی نے اس مسئلے میں پہلے مئوقف دے دیا ہے۔ فوج کبھی ناموس رسالت اور ختم نبوت پر نہ کبھی پیچھے ہٹی ہے اور نہ قیامت تک ہٹے گی۔ آرمی کا مئوقف تو آ گیا ہے پہلے اس پر۔ ہم تو اس آرمی کے مئوقف کو یہاں مضبوط کر رہے ہیں تو وہ کیسے آئے گی یہاں۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے ممتاز عالم دین پیر سید حسین الدین شاہ کی سربراہی میں تحریک لبیک کی قیادت سے مذاکرات کے لئے قائم کی گئی کمیٹی میں جو 20گھنٹے گزرنے پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ کمیٹی کے قریبی ذرائع کے مطابق کمیٹی کو بااختیار بنانے کی بجائے محض تحریک کی قیادت سے مذاکرات کرکے حل تجویز کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ پہلے ہی حکومت اور تحریک کی قیادت کے درمیان اس طرح کے مذاکرات جاری ہیں۔ ان ذرائع نے تحریک لبیک کے ڈرافٹ کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے حکومت اس ڈرافٹ پر عملدرآمد کرائے یا مذاکراتی کمیٹی کو بااختیار بناکر فیصلے کرنے کا مینڈیٹ دے۔ تحریک لبیک یارسولؐ اور دیگر مذہبی جماعتوں نے نارووال میں چوک ظفروال بائی پاس پر دھرنا دیا‘ مذاکرات ناکام ہونے پر پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا‘ ہسپتال ذرائع کے مطابق مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں تین پولیس اہلکار اور ایک مظاہرہ کرنے والا شخص زخمی ہوا‘ مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھرائو کیا‘ ضلعی پولیس کی جانب سے گزشتہ روز صبح سویرے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے گھر کے اردگرد خاردار تاریں لگاکر مکمل طور پر سیل کیا ہوا ہے۔ 17 روز سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جبکہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شدید پریشان ہیں۔ اسلام آبا دمیںکئی روزسے جاری دھرنے کے باعث دارلحکومت کے محکمہ پولیس کو 120 ملین سے زائدکاخر چہ بر داشت کرنا پڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک کیپیٹل پولیس، ایف سی اور پی سی کے اہلکاروں کے کھانوں کا بل 55 ملین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے سکیورٹی اقدامات کے پیش نظر مزید 200 کنٹینروںکو بھی سڑکوں کو بلاک کرنے کیلئے کرائے پر حاصل کر رکھا ہے اور ان کا کرایہ 30 ملین روپے سے تجاوزکرچکا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ کرینیں اور 10ٹریلر بھی کنٹینروںکو لیجانے کیلئے کرائے پر حاصل کئے گئے ہیں جبکہ 19 پانی کے ٹینکر، جن میں 15سے واٹر کینن کو بھرا جاتا ہے اور بقیہ 4 کی مدد سے ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے، بھی کرائے پر حاصل کئے گئے ہیں۔ کراچی میں نمائش چورنگی کے مقام پر مذہبی جماعت کا دھرنا چوتھے روز بھی جاری رہا۔ دھرنے کے شرکا نمائش چورنگی سے صدر آنے والی سڑک پر آ ئے۔ شارع قائدین سے آنیوالا روڈ مزار قائد کے سامنے بند کر دیا گیا‘ گرومندر سے آنے والا روڈ مزار قائد سے پہلے بند کر دیا گیا۔
دھرنا