دی ہینگ (بی بی سی) بوسنیائی سرب کمانڈر راتکو ملادچ کو نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزام میں عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے ان جرائم کا ارتکاب 90 کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران کیا تھا۔ ملادچ نے جنہیں ’’بوسنیا کا قصائی‘‘ کہا جاتا ہے 1995ء میں ان فوجی دستوں کو کمانڈ کیا تھا جنہوں نے مشرقی بوسنیا کے شہر سربرینیتزا میں قتل عام کیا جس میں 7000 بوسنیائی مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ سرائیوو شہر کے محاصرے کے دوران 10 ہزار سے زیادہ بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اسے ہالوکاسٹ کے بعد یورپ کی سرزمین پر سب سے بڑا قتل عام کہا جاتا ہے۔ یہ قتلِ عام بوسنیا کی جنگ کے اختتام سے چند ماہ قبل کیا گیا جب 20 ہزار مسلمان مہاجرین سرب فوجوں سے بچنے کے لئے سربرینیتزا آئے۔ ہیگ میں اقوام متحدہ کے ٹریبونل نے راتکو ملادچ کو 11 میں سے 10 الزامات میں مجرم قرار دیا۔ 74 برس کے ملادچ کو جب سزا سنائی گئی تو وہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ انہیں ججوں پر چیخنے کی وجہ سے عدالت سے نکال دیا گیا تھا۔ عدالت نے ملادچ کے وکیل کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی کو ملتوی کر دیا جائے۔ 1995ء میں ہی جنگ ختم ہونے کے بعد ملادچ فرار ہو کر سربیا میں گمنامی کی زندگی گزارنے لگے۔ ان کے خاندان اور سکیورٹی فورسز کے کچھ لوگوں نے انہیں تحفظ فراہم کیا۔ ملادچ کو قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا تھا لیکن وہ 16 برس تک انصاف کے کٹہرے سے بچتے رہے۔ بالآخر 2011 میں انہیں شمالی سربیا کے ایک دیہی علاقے میں پکڑ لیا گیا۔ عدالت میں فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر مظالم کا شکار ہونے والے کئی افراد اور ہلاک ہونے والوں کے رشتے دار بھی موجود تھے۔
قصائی/ عمر قید