گزشتہ دنوں عالم اسلام کی دو بڑی شخصیات جمعیت علماء اسلام (س) کے سر براہ مولانا سمیع الحق اور تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب اس دنیا سے پردہ کر گئے ‘ان دونوں شخصیات کا اسلام اور مسلمانوں کیلئے اہم کردار رہا ‘وہ مسلمانوں اﷲ اور آپ ؐ کے احکامات پر کاربند رہنے کیلئے عملی جدوجہد اور محنت کر تے رہے ‘آج ان جیسی شخصیات کی عالم اسلام کو اشد کو ضرورت ہے کیونکہ مسلمان آج جس پستی کا شکار ہے اس کیلئے اسے اپنے دین کی طرف لوٹنا ہو گا ‘ اﷲ تعالیٰ نے اپنے سرور کائنات حضرت محمد ؐ کو آخری نبی بنا کر بھیجا ‘خود اﷲ رب العزت نے آپ ؐ کو رحمت العلمین کہا ‘ آپ ؐ اپنی ساری زندگی لوگوں کے دلوں پر کلمہ طیبہ کی محنت کرتے رہے اور اسباب سے ہٹ کر اس کی نفی کرتے ہوئے ایک اﷲ سے مانگنے کی تلقین اور تربیت کرتے رہے ‘ آپ ؐ نے صحابہ اکرام ؓ کی ایسی تربیت کی کہ صحابہ کرام ؓ آپ ؐ کی ہر بات مانتے تھے ‘ جو آپ ؐ کرتے تھے وہی صحابہ کرام ؓ کرتے تھے ‘ آپ ؐ جس چیز کو نا پسند کرتے تھے صحابہ کرام ؓ بھی اسی چیز کو نا پسند کرتے تھے ‘ آپ ؐ نے اسی لئے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جسے تھاموں کے فلاح پائو گے ‘ صحابہ کرام ؓ آپ ؐ سے اتنا عشق کرتے تھے کہ آپ ؐ کے اس دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ جب امیر المومنین تھے تو خواب میں دیکھتے ہیں کہ اﷲ کے نبی کو مسجد میں کوئی کھجوریں دے رہا ہے ‘ حضرت عمر فاروق ؓ کے ذہن میں آیا کہ اﷲ کے نبی ایک کھجور مجھے دے دیں ‘ آپ ؐ نے وہ کھجور حضرت عمر ؓ کو دے دی ‘ پھر یہی خواہش دوبارہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دل میں پیدا ہوئی تو آپ ؐ نے ایک اور کھجور دے دی اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ خواب سے بیدا ر ہو گئے ‘ اگلے روز مسجد گئے تو حضرت عمر فاروق ؓ امیر المومنین کو کسی نے کھجوریں دیں ‘ حضرت علی ؓ کے دل میں آیا کہ ایک کھجور انہیں دے دی جائے ‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک کھجور حضرت علی ؓ کو دے دی ‘ان کے دل میں دوبارہ خیال آیا تو انہوں نے ایک کھجور انہیں دے دی ‘تیسری مرتبہ خیال آیا تو حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ اﷲ کے نبی نے مجھے دو کھجوریں دیں ‘ میں آپ کو تیسری کھجور کیسے دے سکتا ہوں ‘ صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں اﷲ کے نبی کیلئے اتنی محبت اور احترام تھا ‘ عرب کی وہ سر زمین جہاں اس وقت کی کوئی سپر پاور حکومت نہیں کرنا چاہتی تھی‘ وہ صحابہ کرام ؓ جنہیں بڑی تجارت والے ممالک اونٹ ‘بکریاں چروانے والے کہا کرتے تھے انہوں نے آپ ؐ کی مان کر بالا آخر پوری دنیا میں حکومت کی ‘حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے والد انہیں مارا کرتے تھے کہ وہ اگر اونٹ بھی چروانے جاتے تھے تو اونٹ بھوکے واپس لایا کرتے تھے جس پر انہیں کہا جاتا تھا کہ آپ کو کچھ نہیں آتا لیکن یہ اﷲ رب العزت سے آپ ؐ کے تعلق کی نسبت وہ مقام تھا کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں نبی آخر الزماں ؐ فرما رہے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا ‘ آپ ؐ ایک مجلس میں صحابہ کرام ؓ کا تعارف کروا رہے تھے ‘ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور عشرہ مبشرہ کے سارے صحابی موجود تھے ‘ حضرت بلال حبشی ؓ دیوار کے ساتھ بیٹھے رو رہے تھے کہ میرا کیا تعارف ‘ میں غلام ‘میرا باپ غلام ‘میرا دادا غلام اور شجرہ نسب غلام در غلام ‘اﷲ کے نبی نے حضرت بلال ؓ کو بلایا اور ان کا تعارف کروایا کہ میں بلال اور بلال مجھ سے ہے ‘ایک مرتبہ آپ ؐ سحری نوش فرما رہے تھے ‘ حضرت بلال تین مرتبہ آئے کہ یا رسول اﷲ ؐ سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے آپ سحری بند کر دیں ‘ دوبارہ آئے تو دیکھا کہ آپ ؐ سحری نوش فرما رہے ہیں ‘حضرت بلال ؓ نے آپ ؐ سے کہا کہ خدا کی قسم سحری ختم ہو چکا ہے ‘ آپ ؐ فوراً سحری بند کر دی اور فرمایا بلال سحری وقت ابھی باقی تھا لیکن تمہاری قسم کھانے پر اﷲ نے سحری کا وقت ختم کر دیا ہے ‘ یہ صحابہ کرام ؓ کو مقام اﷲ رب العزت نے آپ ؐ سے عشق کی بدولت عطافرمایا ‘ صحابہ کرام ؓ کے کپڑے پھٹے ہوئے ان کے مکان چھوٹے ‘فاقہ مست پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے اور ان کے مقابلے میں قیصر و کسرا بپھرے ہوئے شراب پی پی کر جسم موٹے موٹے ‘مال و مکان والے ‘بڑی بڑی فوجوں اور ساز و سامان والے لیکن ہر غزوہ اور جنگ میں صحابہ کرام ؓ سے شکست کھاتے اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام ؓ کو اﷲ سے مانگنا آتا تھا ‘ ان کے جوتوں کا تسمہ بھی ٹوٹ جاتا تو وہ اﷲ رب العزت سے مانگا کرتے تھے ‘ جب نماز فرض ہوئی تو صحابہ کرامؓ بہت خوش ہوئے کہ اﷲ رب العزت سے پانچ وقت رابطہ قائم کرنے اور مانگنے کا ذریعہ مل گیا ‘ ایک مرتبہ آپ ؐ بھی اپنے گھر تشریف لائے ‘ حضرت عائشہ ؓ نے سے پوچھا کہ کھانے کیلئے کچھ ہے ‘انہوں نے فرمایا کچھ نہیں ‘آپ ؐ مسجد گئے ‘نماز پڑھی ‘اﷲ سے دعا مانگی اور گھر واپس آئے اور پھر پوچھا کہ عائشہ گھر کھانے کیلئے کچھ آیا ہے ‘ فرمایا نہیں ‘پھر مسجد چلے گئے اور اﷲ سے مانگنے لگے اس طرح بالترتیب آپ ؐ متعدد مرتبہ مسجد گئے اور اﷲ سے مانگتے رہے ‘ صحابہ کرامؓ آپ ؐ کی اسی تربیت کی بدولت اﷲ سے مانگنے والے بن گئے تھے اور پھر پوری دنیا میں انہوں نے آپ ؐ کی ہدایت پر اسلام کا پیغام پہنچانے کیلئے اپنے بیوی بچوں ‘ماں باپ اور گھروں کو چھوڑ دیا ۔