حضرت سید فریدالدین شیرازی

جی آر اعوان
قرآن میں ارشاد و ربانی ہے کائنات کو تسخیر کرو ،اس میں ڈھونڈنے والوں کے لئے بے شمار نشانیاں موجود ہیں۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کا آنے والا کل اس کے آج سے بہتر ہو، زندگی مسلسل ایک عمل ہے جو بہترسے بہتر کی خواہش سے عبارت ہے۔ سورج، چاند، ستارے، ہوائیں، فضائیں اور مناظر قدرت سبھی انسانی عظمت کو سلام کرتے ہیں مسلمان کی عظمت کے ادراک کے ساتھ یہ یقین بھی ضروری ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جو قاری نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں قرآن ہو۔
تمام اہل اللہ، ارشاد ربانی کے اسی فرمان کا پر تو ہیں زیرنظر سطور میں لاہور میں جدید اسلامی درس گاہیں قائم کرنے کا آغاز کرنے والے فریدالدھر اور وحید العصر حضرت فریدالدین شیرازی ذکر خیر ہے، قبلہ شیرازی صاحب کا عرس ہر سال 16 اور 17 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے۔
اولیائے کرام کی تعلیمات تصوف پر مبنی ہیں کیونکہ خدا کے شکر کی ترغیب کو ہی تصوف کی بنیاد کیا جاتا ہے۔ فریدالدین شیرازی ایران کی تصوف خیز زمین سے اگلنے والے خدارسیدگی کے گِل نو خیز تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی حضرت خضر الدین سے حاصل کی۔ جنہیں سیاحت کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے اپنے لخت جگر بھی شریک سیاحت کیا اور ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان کا قصد کیا، مسافرت و سیاحت کے دوران تعلیم و تربیت بھی حاصل کرتے رہے۔ سفر کے وسیلہ ظفر ہونے کی صفت سے سلوک و طرفیت کی منازل بھی جناب فریدالدین شیرازی نے پالیں۔ ارض لاہور پر قدم رکھا تو علم و عمل اور عرفان کے بام عروج پہنچ چکے تھے۔
جس زمانے کا یہاں تذکرہ مذکور ہے ،تب لاہور کی قلم رو پر سکھوں کی حکومت تھی جبکہ مغلیہ دور روبہ زوال تھا۔ سکھوں کی دہشت دلوں پر مسلط تھی۔ اس پر آشوب دور میں تبلیغ اسلام اور فلاح انسانیت کے لئے کوئی قدم اٹھانا انتہائی دشوار گزار تھا۔
حضرت فریدالدین شیرازی نے لاہور میں مزنگ کے علاقے میں قیام کیا اور تصّوف کے خوگر اور دین اسلام کے محب آپ کے چشمہ صافی سے خود کو سیراب کرنے کے لئے جوق درجوق بیاں آنے لگے۔ حضرت قبلہ شیرازی صاحب نے حضور داتا گنج بخش کی درگاہ پر چلہ کشی کر کے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی سنت اولیاء کی تجدید کی۔ آپ کو ارود ہندی، فارسی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر ید طولیٰ حاصل تھا۔ ایک عرصہ تک آپ خود نظام الدین اولیاء جیسی جریدہ روز گار ہستی کے آستانہ عالیہ پر معتکف رہے حضرت فریدالدین شیرازی کا قاعدہ تھا آپ اپنے خدا کے سوا کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے تھے۔ ایک بار رنجیت سنگھ کے کم سن جانشین راجہ دلیپ سنگھ کی والدہ مہارانی جنداں مائی نے آپ کو مالی امداد کی پیش کشں جو آپ نے سپاس کے ساتھ قبول کرنے انکار کیا ،جس پر مہارانی آپ کے خلاف ہو گئی اس نے مخالفت میں مذموم اقدام کی کوشش کی مگر کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کی سازشیں دم توڑ گئیں اور قدرت نے انہیں تخت و تاج سے محروم کر دیا۔
1849ء میں پنجاب کی تسخیر کے بعد انگریزوں نے سید فریدالدین فریدی کو کرسی انصاف دینے کی پیشکش کی مگر آپ یہ کرسی بلا معاوضہ قبول کرنے پر تیار ہوئے۔ انگریزوں نے اسی زمانے میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی اور ملک بھر میں گرجوںکے جال بچھا دیتے اور پادریوںکے انبار لگا دیئے اور مستقل مشنری ادارہ قائم کیا جس کا ہیڈ کواٹر کوئنز روڈشارخ فاطمہ جناح مزنگ میں منایا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسند اسلام کے وارث حضرت سید فریدالدین شیرازی نے عیسائیوں کو مزنگ کی کنک منڈی میں مناظرہ کی دعوت دی، جس سے آپ کے علم و عرفان اور فکر وعمل کی دھاک بیٹھ گئی بے شمار پادری آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔
سکھوں نے اپنے عہد میں شاہی مسجد پر قبضہ کر کہ اسے اصطبل بنا دیا سید فریدالدین شاہی نے مسجد واگزار کرائی منبرو محراب کی رونقیں بحال کیں۔ حضور داتا صاحب کے مزار اقدس کے لئے قطعہ بھی آپ نے تحریر کیا۔ آپ شاہ محمد غوث کے رسالہ کی شرح بیان کی آپ کے عرس پر عثاق جام روحانیت نوش کرنے کے لئے جوق درجوق حاضرہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن