سندھی ادیب، دانشور اور کہانی نویس مشتاق کاملانی بھیک مانگنے پر مجبور

سجاول( نامہ نگار) سندھ کے ضلع سجاول سے تعلق رکھنے والے ادیب، دانشور اور کہانی نویس مشتاق کاملانی کو وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے دماغی طور پر مفلوج کر دیا ہے جس کے باعث بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔میڈیا رپورٹ ے مطابق مشتاق کاملانی نے گریجویشن کر رکھی ہے لیکن حالات کے تھپیڑوں نے انہیں فقیر بنا دیا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق جب مشتاق کاملانی کے حالات زندگی معلوم کرنے ان کے گھر پہنچی تو اْن کے گھر کا دروازہ کھلا تھا اور ٹوٹے پھوٹے خستہ حال گھر کا ہر کونا گندگی، دھول مٹی اور جالوں سے بھرا ہوا تھا۔مشتاق کاملانی صحن میں بچھی رلّی کے اوپر دنیا و مافیہا سے بے نیاز بیٹھے تھے۔ان کے بھائی اور کزن نے بتایا کہ مشتاق کاملانی نے 1979 میں گریجویشن کی تھی، وہ سندھی کے مشہور ادیب اور کہانی نویس مرحوم علی بابا کے ساتھ سندھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور سندھی، پنجابی اور انگلش روانی سے بولتے تھے۔مشتاق کاملانی کی کہانیاں بھارت کے آکاش وانی ریڈیو کے علاوہ حیدرآباد ریڈیو سے بھی نشر اور مہران نامہ میں شائع ہوا کرتی تھیں تاہم پھر اچانک وہ غائب ہوگئے۔تین چار ماہ بعد مینٹل ہسپتال کا پتہ چلنے پر وہاں سے انہیں واپس لایا گیا جس کے بعد سے مشتاق کاملانی کا یہی حال ہے اور وہ بسوں میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں۔سجاول کے لوگوں کے مطابق سندھی زبان کے کہانی نویس اور ادیب کی اس حالت کا آج تک حکومتی سطح پر نوٹس نہیں لیا گیا، خصوصاً سندھ کے محکمہ ثقافت کو چاہیے کہ اس قیمتی اثاثے کو بچانے کے لیے مشتاق کاملانی کا نہ صرف سرکاری سطح پر علاج کروایا جائے بلکہ ان کی مالی مدد بھی کی جائے۔مشتاق کاملانی کی حالت زار کے حوالے سے میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر ثقافت سید سردار شاہ نے نوٹس لے کر ان کا علاج کروانے کا اعلان کردیا۔ترجمان کے مطابق مشتاق کاملانی کا علاج سرکاری خرچے پر کراچی کے نجی اسپتال میں کرایا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن