اسلام آباد( سہیل عبدالناصر) آئندہ افغان کانفرنس ستائیس نومبر کو جنیوا میں منعقد ہو رہی ہے جس میں پاکستان بھی شریک ہو رہا ہے اور قوی امکان ہے کہ یہ کانفرنس ، افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو مزید مہمیز کرے گی۔ یہ امکان اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں افغان حکومت ، اور طالبان کے وفود بھی شریک ہوں گے اور پوری کوشش ہے کہ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ان دونوں وفود کے درمیان بات چیت کا بندوبست کیا جائے تاکہ امن مذاکرات کے بارے میں طرفین ایک دوسرے کا مئوقف جان سکیں۔پاکستان، امریکہ، افغانستان اور طالبان کے علاوہ روس، چین اور متعدد یوروپی ملکوں کے نمائندے بھی اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ سفارتی ذرائع کے اگرچہ جنیوا کانفرنس کا بنیادی مقصد امن بات چیت نہیں ہے بلکہ یہ 2016 میں منعقد ہونے والی برسلز کانفرنس کا تسلسل ہے جس کا ہدف افغانستان کی معاشی و سماجی ترقی امن اور استحکام کیلئے عالمی برادری کی کوششوں کو مربوط بنانا ہے لیکن افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں براہ راست مذاکرات کے آغاز کے بعد یہ کانفرنس اہمیت اختیار کر گئی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ بھی کانفرنس کی میزبانی میں شریک ہے۔ افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اس کانفرنس کے انعقاد کے بندوبست اور شرکاء کو دعوت دینے کے عمل میں خود شریک ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے وفود اس کانفرنس کے انعقاد سے استفادہ کرتے ہوئے جنیوا میں باہم مل لیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان ، اشرف غنی کو غیر نمائندہ اور کٹھ پتلی سمجھ کر ہمیشہ ان کے ساتھ مل بیٹھنے سے انکار کرتے رہے ہیں جب کہ قطر کے براہ راست مذاکرات کے باعث افغان حکومت بھی طالبان سے اغماض برت رہی ہے یہی وجہ ہے کہ حال میں روس کے زیر اہتمام ماسکو کانفرنس میں طالبان کا وفد تو شریک تھا لیکن افغان حکومت نے سرکاری وفد بھجوانے کے بجائے امن کونسل کے وفد کو غیر سرکاری حثییت میں ماسکو بھجوایا۔ تاہم جوں جو ں مذکراتی عمل آگے بڑھ رہا ہے توں توں زلمے خیل زاد پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ امن بات چیت کے بارے میں افغانستان کے اندر تمام سٹیک ہولڈرز اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں کو بھی اعتماد میں لیں جس کے پیش نظر انہوں نے کہا ہے کہ افغان حکومت امن بات چیت میں شرکت کیلئے اپنا امن وفد تشکیل دے۔ ان ذرائع کے مطابق قوی امکان ہے سرکاری ارکان، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل افغانستان کا سرکاری امن وفد، جنیوا کانفرنس سے پہلے تشکیل دے دیا جائے گا اور مذکورہ کانفرنس کے دوران طالبان وفد کے ساتھ مجوزہ ملاقات کرے گا۔