ایک آزماتا ہے دوسرا نشانہ لگاتا ہے – ایسا ہی کچھ ایک دفعہ پھر ہو رہا ہے- امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے انٹرویو نے جہاں ہماری قیادت کو آزمایا ہے وہیں جواب میں پینٹا گون کا بیان اس بات کی عکاسی ہے کہ اس دفعہ چلایا جانے والا دھمکی آمیز میزائل مس فائر ہو گیا ہے اور خطے میں پاکستان کی اہمیت کو اور اجاگر کر گیا ہے - کون نہیں جانتا کہ امریکہ کی عنانِ حکومت ایک ایسے ریسلر کے پاس ہے جسے دنیا ایک رِنگ اور مار کٹائی اس میں ہوتا ایک کھیل دکھائی دیتا ہے – جناب ڈونالڈ ٹرمپ ڈبل میک برگر اور ولائتی مشروبات کے زیرِ اثر صبح جب اٹھتے ہیں تو دور کی وہ کوڑی لاتے ہیں کہ ان کی طاقت کے نشے کے سامنے سب ہی جھکتے جائیں اور توصیفی ڈونگرے برساتے جائیں – ایک پہلوان کے لئے اپنی طاقت اور اس کی پذیرائی ہی زندگی ہوتی ہے– یہی شاید اس ریسلر کی دل کی تسکین کے لئے بھی کافی ہے – مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دفعہ دوسری طرف سے پڑنے والے گھونسے پہ جب ہوش درست ہوتے ہیں تو پینٹا گون کو تعلقات درست کرنے کے لئے ایسا ہی بیان دینا پڑتا ہے جو اس دفعہ جاری کیا گیا ہے- پینٹا گون کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکی اقدامات میں پاکستان اس کا اہم شراکت دار ہے کہ جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے – یو ایس ڈائریکٹر آف ڈیفینس پریس آپریشنز رابرٹ میننگ نے نیوز کانفرنس میں رپورٹرز کو بتا یا کہ پاکستان کے بغیر جنوبی ایشیا اور افغانستان میں استحکام ممکن نہیں – میرے خیال میں تو یہ بیان اس نقصان کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے جس نے پاک امریکہ تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کو اس درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم جناب عمران خان کو خود ٹرمپ صاحب کے بیانات اور ٹویٹس کا سختی سے نوٹس لینا پڑا ہے – اس سے پہلے شاید ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب دینے کی بجائے ہماری ضرورت سے زیادہ دفاعی پوزیشن نے اسے وہ شترِ بے مہار بنا دیا تھا کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے باڑہ ہی اجاڑ دے- مسٹر میننگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان سے فوجی سطح پہ قائم تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی- ہمارے وزیر اعظم کے اس بیان نے امریکہ پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اب جواب ملے گا ہر اس بات کا جو پاکستان کے مفاد میں نہ ہوگی – انہوں نے پاکستانی قربانیاں گنواتے ہوئے یہ بات بھی گوش گزار کردی کہ آج تک کسی اتحادی نے امریکہ کے ساتھ کھڑا ہو کے پاکستان جتنی نہ جانی قربانیاں دی ہیں اور نہ ہی اتنا معاشی نقصان اٹھایا ہے کہ جس کے سامنے امریکی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مانند ہو – ابھی نیٹو ،امریکی افواج افغانستان میں موجود ہیں اور امریکہ پاکستان کے بری و فضائی رستے مفت میں استعمال کر رہا ہے – اگر ماضی پہ نظر دوڑائی جائے تو اس سے پہلے بھی ایسے ہی بیانات پہ نیٹو کا رستہ کے پی کے حکومت بند کر چکی ہے- شاید یہی وہ نقطہ ہے کہ جس کی وجہ سے پینٹا گون کو میدان میں کود کر مستقبل کے لئے اپنی راہیں اور تعلقات میں تسلسل کے لئے یہ سب کچھ کرنا پڑا- پاکستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے – آئی ایم ایف کی ٹیم سخت شرائط پہ پاکستان کو قرض دینے پہ رضا مند ہے – ڈونالڈ ٹرمپ کے نزدیک یہی وہ نازک لمحات تھے جن سے فائدہ اٹھا کے پاکستانی قیادت کو گھٹنوں پہ لایا جا سکتا تھا اور وہ کچھ منوایا جا سکتا تھا کہ جو پاکستان کے مفادات پہ زِک اور امریکی فوائد کی ضمانت ہو- وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورے جن میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا شامل ہیں وہ اسی بات کی ایک کڑی ہیں کہ پاکستان کم سے کم آئی ایم ایف پہ انحصار کرے اور وہ ان شرائط میں نہ باندھا جائے جن سے پاکستان کی سلامتی پہ حرف آئے-پاکستان نے اپنی خود مختاری کا ثبوت دینے کے لئے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر پال جونز کو دفترِ خارجہ میں طلب کرکے ان کے ہاتھ اپنے احتجاج کا مراسلہ تھما دیا ہے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات پہ اپنے تحفطات کا اظہار کیا ہے – یہ مراسلہ بھی امریکی حکام کی طبعِ نازک پہ ضرور گراں گذرے گا کیونکہ امریکہ پاکستان سے اس قسم کے جواب کا خواہاں نہیں ہے کہ جس سے ایک آزاد پاکستانی خارجہ پالیسی کی اْسے بو آئے- آئی ایم ایف کی معاشی زنجیروں میں جکڑے جانے سے پہلے وزیراعظم پاکستان اپنا ہر وہ ذریعہ آزما لینا چاہتے ہیں کہ جس سے ہوتی ہوئی اشک شوئی انہیں اتنا ریلیف دے سکے کہ بندھی ہتھکڑیاں ڈھیلی ڈھالی سی ہوں – اگر دیکھا جائے تو وقت کی بھی یہی ضرورت ہے کہ ملکی وسائل سے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے تاکہ ہماری معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو – کرپشن کا دروازہ بند کرکے جائز طریقے سے جائز کام سرانجام دیے جائیں – بجلی کی چوری پہ بندش لگائی جائے – ٹیکس نیٹ کو بہتر کیا جائے اور عام عوام پہ بڑھتی مہنگائی کے اثرات کو کم سے کم کیا جائے تاکہ ملک میں متوسط طبقہ کی ایک باریک سی لکیر اپنی جسامت میں بڑھے اور ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لے- تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک کا متوسط طبقہ توانا ہے اس ملک کی معیشت بہتر ہے- پاکستان جس کی آبادی میں جوانوں کی شرح قابلِ ستائش ہے ان کے لئے نوکریوں کے ایسے وسائل وضع کئے جائیں کہ وہ دست و بازو بنے اپنے پاکستان کی بنیادوں کو استحکام بخشیں – آج اگر ہم نے صدر ٹرمپ کا داغا جانے والا میزائیل بے اثر کرنا ہے تو ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا – کہیں ایسا نہ ہو کہ اس مس فائرڈ میزائیل کے نتیجے میں کل ہم اْس آنے والے میزائیل کا نشانہ بنیں کہ جس کی ضرب بہت کاری ہو –
مِس فائرڈ میزائیل
Nov 23, 2018