کسی احمق بادشاہ نے ایک دن اپنے وزیر کو بلایا اور حکم دیا کہ اے وزیرِ باتدبیر، آپ ہم سے کوئی پہیلی پوچھیںلیکن شرط یہ ہے پہیلی نہایت آسان ہو جو ہم آسانی سے بوجھ سکیں اور بھرے دربار میں عوام الناس کے سامنے شرمندہ بھی نہ ہوں اور ہاں اگر ہم پہیلی نہ بوجھ سکے تو آپ کا سرقلم کردیا جائے گا۔ یہ سن کر وزیر کے ہوش اْڑ گئے، اْسے علم تھا کہ بادشاہ سلامت عقل کے کورے ہیں اور پہیلی تو اْن سے بوجھی نہیں جائے گی سو آج تو ضرور اس کا سر قلم ہوگا، وہ غریب بیچارہ کچھ ایسی پہیلی سوچنے لگا جو بچوں سے بھی بوجھی جاسکتی ہو، بہرحال دھڑکتے دل کے ساتھ وزیر نے بادشاہ سے کہا اچھا بادشاہ سلامت بتائیے ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا ہے، دھوبی گھاٹ پہ رہتا ہے، اتنا سنتے ہی بادشاہ سلامت سوچ میں پڑ گئے اور وزیر کو خونخوار نظروں سے دیکھا جس نے اتنی مشکل پہیلی ڈال کر بادشاہ سلامت کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ کچھ دیر کشمکش میں رہنے کے بعد بولا، ارے بھائی کچھ اتا پتا تو بتا دو وزیر نے عرض کیا حضور میں زیادہ کھل کر اتا پتا تو نہیں بتا سکتا بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ جانور گھوڑے کا ہم شکل ہے، بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہے اور بے وقوف بھی کہلاتا ہے۔ بادشاہ سلامت پھر سے سوچوں میں غرق ہوگئے، وزیر خوف سے کانپ رہا تھا اور اْسے اپنا سرقلم ہونے کے آثار بھی نظر آرہے تھے اچانک بادشاہ سلامت خوشی سے اْٹھ بیٹھے اور مسکرا کر بولے، لو بھئی بوجھ لی ہم نے پہیلی، وزیر کی جان میں جان آئی اور اشتیاق سے بادشاہ سلامت کا جواب سننے کیلئے نزدیک آ گیا۔ بادشاہ سلامت نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا"کتا" وزیر سناٹے میں آ گیا اور اْس کا دل ڈوبنے لگا لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور بادشاہ کو تعریفی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ حضور اتنی جلدی اتنا درست جواب دے دیا۔
لیکن قارئین آپ اس حکایت کو موجودہ زمانے کے تناظر میں تو ہرگز نہ دیکھئے گا، ماحول بدل چکا ہے حالات اور سیاست کے انداز بھی بدل چکے ہیں اور ہم جو پچھلے کئی مہینوں سے سن سن کر تھک چکے ہیں کہ تبدیلی انہیں رہی، بلکہ تبدیلی آچکی ہے۔تو بہت سے معاملات میں تو واقعی تبدیلی آچکی ہے، اتنی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں جن کو ایک اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے۔ اب وزیر باتدبیر نہیں رہے اب وہ زمانے گئے جب بادشاہ بے وقوف اور وزیر نہایت عقلمند ہوا کرتے تھے۔ آپ سب کافی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ایک ریڑھی والے کی بھی سیاست پر کڑی نگاہ ہے تو آپ خود سوچئے نہ کہ آج کل بادشاہ عقلمند ہوتے ہیں یا وزیر، یا سارے کا سارے آوا بے وقوف ہوتا ہے یا پھر یہ سب تو عقلمند ہی ہوتے ہیں لیکن ہم عوام بے وقوف ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی آخری بات ہی کچھ سچ لگتی ہے۔ ہم بے وقوف نہ ہوتے تو بادشاہ اور وزیروں کے انتخاب میں ایسی ایسی عظیم تر غلطیاں کرتے کیا؟ خیر ہمیں اپنے نامہ اعمال پر سیاست سے زیادہ کڑی نگاہ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ حالات کی خرابی ہماری قسمت سے واقع ہوئی ہے یا جہالت سے اس پر بحث کیا کریں۔ اب کابینہ شیخ چلی کی پیروکار یا اْمت لگتی ہے۔ کبھی کبھی تو ٹی وی آن کرنے پر لگتا ہے کہ مولاجٹ اور نوری نت کا دوبارہ سے ظہور ہوچکا ہے۔ خیر ان بڑھکوں کے دوران ہی بہت سا پانی پْلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے اور ہاتھ ملتے رہنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا۔ باقی بہت سی باتیں بڑے عہدوں پر زیب تو نہیں دیا کرتیں نہ ہی منصب اْسکی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی مذہب اور اخلاقیات۔ نقل اْتارنا اور نقل کرنا ریاستِ مدینہ کی شان تو ہرگز نہیں ہوسکتی اور اس بارے میں اسلام میں کس قدر مذمت اور ممانعت کی گئی ہے۔ ایک پڑھا لکھا باشعور شخص یقینا" اْس سے واقف ہوتا ہے، رحم کرنے کا حق بھی رحمِ مادر میں تخلیق کرنے والے کے سوا کسی کے پاس نہیں ہوتا اور اگر اللہ نے دْنیا میں اتنی اتھارٹی دی ہوکہ کمزوروں کے ساتھ رحم کیا جاسکتے تو رحم کیا جاتا ہے اْس کا سرعام ڈھنڈورا تو نہیں پیٹا جاتا۔ ریاست مدینہ میں عاجزی وانکساری زیب دیتی ہے نہ کہ غروروتکبر اور بڑائی کی باتیں اْس کی شان ہوا کرتی ہیں۔ مہنگائی نے غریب کی جان نکال کر رکھ دی ہے۔ ٹماٹر کی قیمتیں اکثر آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں کوئی حل نکالنے کی بجائے بیان آنے لگتے ہیں کہ متبادل استعمال کیا جائے اور ٹماٹر استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ چلیں یوں بھی کرکے دیکھ لیتے ہیں لیکن کیا مسائل کا حل یہی ہے۔ سبزیاں، ضروریات زندگی، بل،بجلی، گیس اور باقی مہنگی ترین ہوجانے والی اشیاء کے بارے میں کیا حکم ہے، مشورہ درکار ہے۔ چھاپوں، سزائوں اور جرمانوں کے باوجود آٹے، دال، گوشت، سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کے من مانے نرخوں نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ہر ٹی وی چینل پر پوری سکرین پر چھا جانیوالے ترجمانوں نے بھی زندگی کی مشکلوں کو مزید بڑھا رکھا ہے۔ بڑھکیں، تقریریں، جھوٹ، بیان بازیاں۔ اللہ کی پناہ ہے۔ نہ جانے کچھ لوگوں کی زبان میں ہر وقت کھجلی کیوںہوتی رہتی ہے۔ اب سانس لینے کو ٹی وی کھولنے پر کچھ تفریح کا سامان دیکھنے کی بجائے ان کو ہروقت ملاحظہ فرمانے اور کانوں کو پھاڑ دینے والی آوازوں سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ مشورہ درکار ہے۔