یہ محض اتفاق نہیں مشیتِ ایزدی ہے کہ جس روز تصورِ پاکستان کے خالق شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا یوم ولادت ملک بھر میں دھوم دھام سے منایا جا رہا تھا۔ اسی روز سکھ مذہبی کے بانی بابا گوروناناک جی کا 550 واں جنم دن بھی تھا اور اس روز بابا گورونانک کے سورگباشی ہونے مقام گورودوارہ کرتار پور صاحب کو 72 برسوں کے طویل عرصہ کے بعد سکھوں کی زیارت کے لیے کھول دیا گیا۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ جس طرح مفکر ملت علامہ اقبالؒ نے اسلامیانِ ہند کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے اپنے شہرہ آفاق کلام کے ذریعے فکری اور روحانی رہنمائی کی تھی اور ایک الہامی انداز میں غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی سامراج کے سیاسی تسلط اور برہمن ازم کے اقتصادی نظام تلے غلامی کی زندگی بسر کرنے والی امت مسلمہ کیلئے ایک الگ آزاد مملکت کے قیام کے مقدر ہو جانے کی نوید دی تھی۔ اسی طرح اس مردِ حق شناس نے بابا گورونانک کو وحدانیتِ خداوندی کا مبلغ اور علمبردار ہونے پر بھی مہر تصدیق ثبت کی تھی اور اس حقیقت کا برملا اظہار حضرت علامہ نے برملا طور پر اپنے الہامی کلام میں کر دیا تھا۔ حضرت علامہ اقبالؒ کی نگاہ حق شناس نے اپنے مجموعہ کلام بانگِ ذرا میں ’’نانک‘‘ کے عنوان سے بابا گورونانک جی کے عہد کے ہندوستان کی تصویر کشی کرتے ہوئے نانک جی کی طرف سے صدائے توحید بلند کرنے کا برملا اظہار کیا ہے۔
حضرت علامہ فرماتے ہیں۔
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پرواہ نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانہ کی
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
اسی نظم میں آگے چلتے ہوئے فرمایا:۔
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
حقیقت یہ ہے کہ بابا گورونانک جی کے کلام وحدانیت کا کوئی حصہ، نظم یا بند ایسا نہیں جو ذاتِ باری تعالیٰ کے نام سے شروع نہ ہوتا ہو اور اس میں خدا وحدۂ لا شریک کی یاد میں ڈوب کر من کی مراد حاصل کرنے کی تلقین نہ کی گئی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اس پرچارک نے اپنی حیات فانی کے آخری کئی برس کرتار پور ہی میں گزارا۔ اس کے کلام میں دوٹوک اور واشگاف انداز میں نوع انسانی کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ انسان کا سب سے پہلا فرض اللہ تعالیٰ کو ازلی اور ابدی ہستی اور سچا ماننا ہے خدا برحق ہے انسان صرف اللہ کو معبود اور خود کو اس کا بندہ سمجھے۔ اسے مشیت ایزدی ہی سے تعبیر کیا جائے گا کہ غیر منقسم ہندوستان میں صدیوں قبل ہندو قوم کے فسق و فجور سے لتھڑے ہوئے معاشرے میں قدرت خداوندی نے جوش میں آ کر جس مرد کامل کو اذان توحید کا فرض ادا کرنے کیلئے بھیجا وہ بقول علامہ اقبال بابا گورو نانک تھے۔ بابا گورو نانک جی کو سورگباش ہوئے قریباً سوا چار سو صدیاں بیت گئیں کہ امتِ مسلمہ کے شہرہ آفاق فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ نے جس خوبصورت پیرائے میں اس روز سے پردہ اُٹھایا ہے۔ یہ صرف اور صرف اسی عظیم شاعر ملتِ اسلامیہ کا حصہ ہو سکتا ہے جنہیں رب ذوالجلال نے اپنی رحمت خاص کے تحت روحانی بصیرت سے مالا مال کیا تھا۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے بانگ درا‘‘ ہی میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت کے عنوان سے جو نظم رقم کی ہے اس کا آغاز ہی انتہائی روح پرور انداز میں کہا ہے۔ فرمایا ہے۔
چشتیٔؒ نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
پھر کیا خوب فرمایا:۔
وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میر عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
گورد وارہ کرتار پور صاحب راہداری کھولنے کی تاریخی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دیگر اہم باتوں سمیت مسئلہ کشمیر کا ادارہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی بات کرنا نہ صرف دنیا بھر کی انسانی حقوق، آزادی اور خودمختاری کی علمبردار اقوام کے دلوں پر دستک کے مترادف ہے بلکہ یہ دنیا کے اہم ترین خطے جنوبی ایشیائی ممالک کے کم و بیش دو ارب انسانوں کی ترقی اور خوشحالی کا راز بھی وابستہ ہے۔ بھارت کے نامور کرکٹر نجوت سنگھ سدھو کا یہ کہنا کوئی نقلی نہیں بلکہ حقیقت حال کی عکاسی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد سے اب تک 72 برسوں بعد کرتار پور راہداری سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کروڑوں سکھوں کے دل کی آواز بن چکے ہیں، جنہوں نے خدا کی خوشنودی کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔ نجوت سنگھ سدھو کے بقول بابا گورونانک کے پیروکاروں کی تعداد 14 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہ چودہ کروڑ یقیناً وہ لوگ ہیں جو اللہ کو وحدۂ لا شریک کے پرچارک علمبردار بابا گورونانک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا عزم و ایمان رکھتے ہی ہر سکھ کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ بابا گورونانک کے عقائد میں بُت پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بابا گورونانک کی تعلیمات ہی بُت پرستی کے خلاف ایک واضح قسم کا اعلان جہاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بُت پرست ہندوئوں نے سکھ مذہب کے قیام کے وقت ہی سے اس کی مخالفت میں دن رات ایک کر دیا۔ ہندومت کی بنیاد ہی ذات پات کی تقسیم پر ہے جبکہ بابا گورونانک کی تعلیمات سے ہندوئوں کا ذات پات کی تقسیم پر معاشرہ زمین بوس ہوتا ہے۔ ایسے حقائق کی روشنی میں بابا گورونانک کے سچے پیروکاروں کا فرض ہے کہ اپنے عظیم گورو کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں انسانوں سے بلاتمیز مذہب و ملت پیار و محبت و رواداری اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیں اور حق و انصاف کا ساتھ د ینے کے عمل کو اپنائیں۔