ہم معیشت و سیاست کو روتے رہتے ہیں، بدامنی کو روتے، حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں، افسران کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جاگیر داروں کو کوستے ہیں، سرمایہ داروں کو تباہی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سب بھی ہماری تباہی کے ذمہ دار تو ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم خود بھی ان حالات کے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ہم اسلام کے بنیادی رہنما اصولوں کو بھلا بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ مار پڑ رہی ہے۔ ہمیں مذہب شکر ادا کرنے، تکبر سے باز رہنے اور حدود سے تجاوز نہ کرنے کا سبق دیتا ہے۔ اسلام ہمیں عاجزی اختیار کرنے احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی ترغیب دیتا ہے، اسلام ہمیں انصاف کرنے کا سبق دیتا ہے، اسلام ہمیں رحم کی ترغیب دیتا ہے۔ ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے۔ ہم خود کلامی کریں، اپنی حقیقت دیکھیں، شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ماضی کو دیکھیں دوستوں کے احسانات اور اپنے رویوں کو دیکھیں تو کیا ہم خود کو جواب دے سکتے ہیں۔ ہم ایسے کم ظرف ہو گئے ہیں کہ ہر دور میں محسنوں کا قتل کرتے ہیں، احسان فراموشی کرتے ہیں، نعمتوں پر عاجزی اختیار کرنے کے بجائے اتراتے ہیں۔ کیا ان اخلاقی رویوں کے بعد ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ ان عادات کے ساتھ ہم عروج حاصل کر سکتے ہیں، کیا تکبرانہ رویوں، بے رحمی،حسد، حد درجہ ناشکری، احسان فراموشی اور فساد پھیلانے والی عادات کے ساتھ بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔ ہم خود بے رحم ہیں اور مشکل وقت میں یہ توقع کرتے ہیں ہم پر رحم کیا جائے۔ جب تک ہمیں ضرورت ہوتی ہے جھکے رہتے ہیں اور جب مطلب پورا ہو جاتا ہے تو لمحوں میں آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ کیا ہمیں اسلام سے یہ سبق ملتا ہے کہ محسنوں کی گردنیں کاٹیں۔ حیثیت بدلے، اقتدار و اختیار ملے تو متکبر ہو جائیں۔ ہمیں تو یہ سبق ملتا ہے کہ جتنی نعمتیں ملیں اتنے عاجز ہو جائیں۔ جھک جائیں، شکر ادا کریں۔ جب ہم اللہ کے بندوں کا شکر ادا نہ کریں تو خالق کائنات کا شکر کیسے ادا کریں گے۔ والدین اولاد سے خوش نہیں ہیں، اولاد والدین سے ناراض نظر آتی ہے۔ بھائی بھائی سے ناراض ہیں، چچا بھتیجا لڑ جھگڑ رہے ہیں، ماموں بھانجے آمنے سامنے ہیں۔ دوستوں دشمنوں میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ دوست دوست کا گلا کاٹ رہا ہے۔ بیوی شوہر سے ناراض ہے اور شوہر بیوی سے ناخوش ان حالات میں مثبت تبدیلی کیسے ممکن ہے۔
آج معاشرے میں ہر جگہ بدامنی اور بے چینی ہے، افراتفری ہے، ہر کوئی دوڑ رہا ہے، ہر شخص دوسرے کو گرانا، ہرانا اور آگے نکلنا چاہتا ہے۔ کسی سے مقابلہ نہ بھی ہو تو ہم بلاوجہ ہر کسی سے میچ ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مخالف کو نیچے گرانے کے لیے تمام منفی حربے اختیار کرتے ہیں۔ ناشکری کرتے ہیں، احسان فراموشی کرتے ہیں، نوازے جانے پر اکڑ جاتے ہیں۔ بھلائی کرنے کے بجائے ہم زخم لگا کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ منزل پر پہنچنے کے لیے بازو کاٹنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کا نشہ ہماری حیثیت اور سوچ ہی نہیں بدلتا ہمیں بے رحم، احسان فراموش، ظالم، متکبر اور فسادی بھی بنا دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کے آج تک آنے والے حکمران ملک میں حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جاتے۔ ہم اوپر سے نیچے اور نیچے اوپر تک بے رحم ظالم اور احسان فراموش ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور اسے جملوں بیانات سے بدلا نہیں جا سکتا۔ ایسے سینکڑوں، ہزاروں واقعات روز ہمارے اردگرد رونما ہوتے ہیں کہ جہاں ہم ایک دوسرے کا گلا گھونٹتے ہیں پھر بھگتتے بھی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔
ہم کتنے ظالم ہو سکتے ہیں اس حوالے سے اردگرد دائیں بائیں دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو دیکھیں کہ کب کب کس نے ہمارے ساتھ کیسا برتاؤ کیا اور مشکل وقت گذرنے کے بعد جواب میں ہمارا رویہ کیسا تھا۔کسی بھی دفتر میں جائیں آپکو ہر جگہ سختی اور رکاوٹ کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ جو جس عہدے پر ہے وہیں خودسری کا بدترین نمونہ بنا دکھائی دیتا ہے۔
ہم اپنی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کئی ا یسے کردار نظر آتے ہیں جو احسان فراموشی، ظلم اور تکبر کی بدترین مثالیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر سابق صدر آصف علی زرداری تک بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور حکمرانوں نے ہر دور میں اپنے پسندیدہ افراد کو معیار کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر معمولی فائدے دیے۔ مفاد پرستوں نے ہر دور میں اپنے محسنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ یہ مفاد پرست ہر دور میں ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر چھلانگیں لگاتے رہے ہیں جب حکمران طبقہ مفاد پرستی اور موقع پرستی کا نمونہ بنا رہے گا تو نچلی سطح تک کتنا برا تاثر جائے گا اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
پاور پالیٹکس میں کئی منفی کردار نظر آتے ہیں جو زمینی علاقوں سے پہاڑوں کی طرف سفر کر کے گئے کچھ ایسے ہیں جو موقع تلاش کرتے کرتے شمالی اور جنوبی علاقوں سے سفر کر کے زمینی علاقوں تک آئے موقع ملنے ترقی کرنے پر ایسے بدلے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جب رہنما ایسے رویوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ان کی پیروی کرنے والے بھی گردنیں کاٹنے کے ریکارڈ قائم کریں گے۔
ہم کب تک ایسے رویوں کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ کب تک بے حسی میں زندگی گذارتے رہیں گے۔ہم کس طرف جا رہے ہیں، ہماری منزل کیا ہے، نہ ہم اسلامی احکامات پر عمل کر رہے ہیں نہ ہم اردگرد اور مہذب معاشروں سے کچھ سیکھ رہے ہیں۔ حکمران کرپشن کا رونا روتے ہیں لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس اہم ترین پہلو پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ جب تک انسانوں کا معیار بلند نہیں کیا جائے گا کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
ناشکری اور تکبر تباہی کی بنیادی وجوہات!!!!
Nov 23, 2019