داعش تنظیم نے اپنے سربراہ ابو بکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد "ابو ابراہیم القرشی الحسینی" کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ روسی لکھاری الیگزینڈر اگناٹنکو کے مطابق اس اعلان نے ایک بار پھر "خلافت کے بغیر خلفا" کا قصہ چھیڑ دیا ہے۔اس سلسلے کی پہلی شخصیت فلسطینی نژاد اردنی "محمد عیسی الرفاعی القرشی الحسینی" کی تھی۔ اس نے خود کو "ابو عیس الرفاعی" کی عرفیت دے رکھی تھی۔ وہ ابو مصعب الزرقاوی کا رشتے دار اور بنیاد پرست جہادی تنظیموں کے گرو "ابو محمد المقدسی" کا شاگرد تھا۔ابو عیسی الرفاعی نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز اردن کے شہر الزرقا میں الاخوان المسلمین تنظیم کے ساتھ اس وقت کیا جب وہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد وہ مدینہ منورہ کی اسلامک یونیورسٹی کی کلیہ الحدیث میں تعلیم کے لیے سعودی عرب منتقل ہو گیا۔ تاہم ڈیڑھ برس بعد اس نے پڑھائی چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور پھر سے اردن لوٹ آیا۔ابو عیسی الرفاعی نے اپنی تعلیم پاکستان میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے قائد اعظم یونیورسٹی میں "نیچرل تھراپی" کے شعبے میں داخلہ لے لیا۔ وہ پاکستان میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہو گیا اس کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔ یہ افغانستان میں سوویت یونین کی جنگ کا زمانہ تھا۔ اس نے اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے جاری رسالے "المسلم" کے ذریعے افغان جہاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں عرب طلبہ کا پاکستانی اور افغان جہادی قیادت کے ساتھ رابطہ کرایا۔ابو بکر البغدادی کے جاں نشیں نے یوٹیوب پر ایک وڈیو میں بتایا تھا کہ اردن میں موجودگی کے وقت سے ہی اس کا "عبد اللہ عزام" سے رابطہ رہا۔ عزام نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں تدریس کا فیصلہ کیا تو ابو عیسی الرفاعی نے ہی ہوائی اڈے پر عزام اور ان کے گھر والوں کا استقبال کیا اور وہ 3 روز الرفاعی کے یہاں مہمان رہے۔ اس نے کراچی اور پشاور کے دوروں میں اسامہ بن لادن کا بھی استقبال کیا۔الرفاعی نے اردن میں اسلامک ہسپتال میں کام کیا۔ وہاں اس کا تعارف شام میں الاخوان المسلمین کے نگرانِ عام عصام العطار سے ہوا۔ بعد ازاں الاخوان کے طریقہ کار سے اختلاف کی بنا پر الرفاعی نے العطار کی تنظیم "الطلائع الاسلامیہ" میں شمولیت اختیار کر لی۔ بعد ازاں الرفاعی اپنے موقف سے متصادم پالیسی کے سبب الطلائع تنظیم سے بھی نکل گیا۔الرفاعی کے مطابق اس نے سابق عراقی صدر صدام حسین کو پیش کش کی تھی کہ کویت پر قبضے کے بعد وہ اسلامی خلافت کا اعلان کریں اور خلیف المسلمین بن جائیں۔الرفاعی ہمیشہ سے امت کو یکجا کر کے خلافت کے قیام کا حامی رہا ہے۔ یہ وہ ہی بنیادی موقف ہے جو الاخوان المسلمین تنظیم کے بانی حسن البنا، تنظیم کے بڑے رہ نما سید قطب اور جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلی مودودی کے لٹریچر میں پایا جاتا ہے۔الرفاعی نے "الدعوہ و الجہاد" کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور پھر تنظیم کے لیے حامیوں ، پیروکاروں اور مالی رقوم اکٹھا کرنا شروع کر دیں۔ بعد ازاں اس نے تنظیم کو "جماع المسلمین" کا نیا نام دے دیا۔