پاکستان کا چاول پوری دنیا میںاپنی مخصوص خوشبو اور ذائقہ کے لحاظ سے مانا جاتاہے خاص کر پاکستانی باسمتی چاول نے یورپ میں انڈین چاول کو پیچھے چھوڑ دیاہے اس سال پاکستان کے کاشتکاروں نے اللہ کی رحمت سے بھر پور محنت کر کے چاول کی بمپر فصل ھاصل کی ہے رائس ڈیلرز نے کاشتکاروں سے سپری 86،چناب سپر 1509،ہائبرڈ سپر فائن ،اری6اور اری9اچھے نرخوں سے خرید کی یہ نان باسمتی ورائٹی 1900 تک بھی خرید کئے رائس ڈیلرز نے اس امید پر نان باسمتی ورائٹی کاشتکاروں سے مہنگے داموں خریدیں کہ وہ کائنات اور سپر کی آمد سے قبل انکا چاول فروخت کردیں گے مگر چاول تیار ہوا تو دھان کے برعکس چاول کا ریٹ بہت کم نکلا کیونکہ جیسے ہی نیا چاول مارکیٹ میں آیا ڈالر 168سے گرنا شروع ہو گیا جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز نے چاول میں خریداری محدود کر دی جبکہ دوسری طرف فلپائن اور انڈیا نے کرونا سے اپنا روکا ہوا سٹاک کم قیمت میں فروخت کیا جس سے پاکستانی رائس ایکسپورٹرز سائیڈ لائن ہو گئے اور اس کااثر مقامی مارکیٹ پر بھی ہوا کیونکہ سیل زیادہ آگئی اور دام گر گئے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ تقریباََہر رائس ملرز کو نان باسمتی چاول سے فی 40کلو500خسارے کا سامنا ہے اب جب کہ کائنات اور سپر کی بھر پور فصل مارکیٹ میں آ رہی ہے تو رائس ملرز میں سکت نہیں ہے کہ وہ باسمتی ورائٹی دھان خرید کر سکے اس وجہ سے سپر اور کائنات کی فصل منڈیوں میں رل رہی ہے خریدار غائب ہے اس سارے معاملے میں حکومت خاموش ہے چاول کی ایکسپورٹ کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی حکومت اگر چاہے تو افغانستان اور ایران کے تجارتی بارڈرکھول کر چاول میں سب سڈی دے کر چاول کی تباہ ہوتی صنعت کو بچا سکتی ہے چاول کی صنعت سے کروڑوں لوگوںکا روزگار وابستہ ہے پاکستان چاول کی صنعت کی تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر چاول کی ایکسپورٹ کی جائے خاص کر ہنگامی بنیادوں پر افغانستان اور ایران کے تجارتی بارڈر کھول دئیے جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو چاول کی صنعت کی تباہی کے ساتھ ساتھ کروڑوں لوگ بے روز گار ہو جائیں گے کاشتکار اناج کی کاشت سے توبہ کر لیں گے اور آنے والوں سالوں میں گند م کے ساتھ ساتھ پھر چاول کا بحران بھی پیدا ہو جائے گا زرائع کا کہنا ہے کہ حکومت چاول کے مسّلہ کو سیاسی طور پر دیکھ رہی ہے اگر افغانستان اور ایران چاول زیادہ ایکسپورٹ ہو گیا تو ملک میں چاول مہنگا ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اس سال پاکستان میں چاول کی بھر پور فصل ہے اور حکومتی ادارے چاول کے سٹاک کا اندازہ لگا کر افغانستان اور ایران ایکسپورٹ کی اجازت دیں چاول کے بحران سے بچنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ چاول اگانے والے کاشتکار کی جیب پر ڈاکہ نہ پڑ جائے ۔
اب ایک نظر شوگر مارکیٹ پر مقامی موٹی چینی حکومتی نرخ 85کلو کے برابر ہو جائے گی شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے زرائع کے مطابق اپر پنجاب کی 6شوگر ملز نے کرشنگ شروع کر نے کے بعد اوپن مارکیٹ میں چینی کی فروخت شروع کر دی ہے جب کہ شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق آئندہ ایک ہفتے میں مقامی موٹی چینی کی قیمت کم ہو کر 85روپے کلو ہونے کا قوی امکان ہے گذشتہ ہفتہ تک پنجاب میں چار شوگر ملوں نے کام شروع کرتے ہوئے نئے گنے کی کرشنگ سے تیار ہونے والی چینی مارکیٹ میں سپلائی کرنا شروع کر دی ،تین ملیں اپنی تیار کردہ سو فیصد چینی مارکیٹ میں سپلائی کر رہی ہیں جبکہ ایک مل 50فیصد تک مارکیٹ میں سپلائی کر رہی ہے آئندہ چند روز میں مزید شوگر ملز چل پڑیں گی اور مزید چینی کی آمد شروع ہونے سے نہ صرف چینی کی دستیابی معمول پر آئے گی بلکہ اس کی قیمتوں میں نمایاں کمی آجائے گی علاوہ ازیں 26ہزار ٹن چینی لیکر آنے والا چوتھا بحری جہاز آئندہ چند روز میں کراچی بند گاہ پہنچ جائے گا پنجاب حکومت مزید چینی لینے سے معذرت کرنے بارے وفاق کواگاہ کر چکی ہے تاہم گذشتہ رات گئے تک حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا کہ چوتھے جہاز کی چینی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اٹھائے گی یا پنجاب اپنے پاس رکھے گا یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن چوتھے جہاز کی چینی لینے پر آمادہ اور حکومتی منظوری کی منتظر ہے بعض حکومتی اور تجارتی حلقوں کی جانب سے کین کمشنر پنجاب پر اعتراض کیا جا رہاہے کہ انہوں نے ڈیلرز کے ساتھ تحریری معاہدہ اور ضمانتی چیک لئے بغیر اربوں روپے کی چینی انہیں فراہم کرنا شروع کر رکھی ہے جو کہ قواعدوضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اگر کوئی خوردبرد ہوتی ہے تو یہ ایک برا نیب کیس بن سکتاہے پنجاب شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق پنجاب کابینہ کی منظوری سے پنجاب کے شوگر ڈیلرز کراچی سے چینی اٹھا کر پنجاب میں فروخت کر رہے ہیں جس سے لوگوں کو83روپیے کلو امپورٹ ہوئی چینی مل رہی ہے دوسری طرف ڈالر کے 157ہونے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی سستی ہونے کے بعد اب اگر TCPباہر سے مزید چینی منگوائے تو وہ پاکستان پہنچ کر 62روپے کلو پڑے گی موجودہ صورتحال تشویش ناک ہے ملک میں کرشنگ سیزن شروع ہے اور امپورٹ ہونے والی چینی ملک میں پہنچ رہی ہے اس کا براہ راست اثر گنے کی قیمت پر پڑے گا اور شوگر ملز کیلئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر چینی خرید سکیں دوسری طرف ابھی بھی حکومت نے چینی کی امپورٹ اوپن کر رکھی ہے اگر چینی کی امپورٹ اوپن رہتی ہے تو پاکستان کی شوگر ملوں کی بجائے ٹریڈرز باہر سے منگوائیں گے کیونکہ اب باہر والی چینی سستی ہو گئی ہے ایک جامع شوگر پالیسی کی ضرورت ہے جو اوپن ہو کیونکہ چینی کے اس کھیل میں کہیں کاشتکار قربان نہ جائیں حکومت کواس جانب لازمی توجہ کرنی چاہیے۔
اب ایک نظر کاٹن مارکیٹ کی جانب جہاں گذشتہ ہفتے PCGAنے 15نومبر2020تک ملک میں کپاس کے اعدادوشمارجاری کئے جس کے مطابق اس عرصے تک ملک میں روئی کی پیداوار 40لاکھ 27ہزار 376گانٹھوں کی ہوئی جو گذشتہ سال کی اسی عرصے کی پیداوار 68لاکھ 57ہزار 518گانٹھوں کی نسبت 28لاکھ 30ہزار 142گانٹھیں(41.47)فیصد کم ہے اس عرصے میں مقامی ٹیکسٹائل ملز نے 31لاکھ 24ہزار 851گانٹھیں خریدی ہیں جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کی خریداری 52لاکھ 57ہزار 64گانٹھوں کی نسبت 21لاکھ 32ہزار 213گانٹھیں (40.56)فیصد کم خریداری کی ہے اس عرصے میں جنرز کے پاس روئی کی8لاکھ 81ہزار گانٹھوں کا غیر فروخت شدہ سٹاک موجود ہے اس رپورٹ کے جاری ہوتے ہی مقامی مارکیٹ میں مندے کی لہر رک گئی اور مارکیٹ 200کا جمپ لیتے ہوئے 9650کی ہو گئی اسی طرح پھٹی کی قیمت میں 300کی نمایاں تیزی آئی اور پھٹی 40کلو دوبارہ 5000ہو گئی یہPCGAکی رپورٹ واضع کر رہی ہے کہ پاکستان میں 55لاکھ سے زیادہ پیداواررواں سیزن میں نہ ہو اور یہ بہت کم ہے جس کا ملک کی معیشت کے ساتھ ٹیکسٹائل اور جینگ سیکٹر کو نقصان ہے جبکہ کپاس اگانے والے کاشتکار تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ فصل کا سائز بتا رہاہے کہ فی ایکڑپیداواربہت کم ہوئی ہے جبکہ امریکہ کی کاٹن فروخت کی ویکلی رپورٹ گذشتہ ہفتے کی نسبت 45فیصد جبکہ گذشتہ4ہفتوں کی اوسط سے40فیصد کم رہی ویتنام پہلاجبکہ پاکستان دوسرا بڑا خریدار رہا چین نے امریکہ سے ایک گانتھ بھی نہیں خریدی بلکہ 24ہزار200بیلز کے سودے منسوخ کئے امریکا کی کاٹن ایکسپورٹ گذشتہ ہفتے کی نسبت 5فیصد کم رہی لیکن اس کے باوجود امریکن کاٹن مارکیٹ سمیت مجموعی طور پر انٹرنیشنل کاٹن میں نمایاں تیزی رہی جس کی وجہ کرونا ویکسین کا مارکیٹ میں آنے کا اعلان تھا امید ہے کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں امریکہ میں کرونا ویکسین عوام کو ملنا شروع ہو جائے گی سردست امریکہ نے پاکستان کو کرونا ویکسین دینے سے معذرت کر لی ہے پاکستان چاہتے ہو ئے بھی کرونا ویکسین نہیں خرید سکتا کیونکہ جرمنی کی کرونا ویکسین سٹور کرنے کیلئے منفی 80 سینٹی گریڈ کے سٹور درکار ہیں جو پاکستان میں ہیں۔