پاکستان کو بنے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے اور آج تک عوام ایک قوم بن کر سامنے نہیں آ سکی ہے ۔آج بھی ایک دوسرے کو عوام شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ گروپوں اور گروہوں میں آج بھی ہم بٹے ہوئے ہیں ۔ یہ تو سنا تھا کہ آزادی سے قبل انگریزوں نے حکمرانی کرنے کیلئے عوام کو تقسیم کئے رکھے اور اس کیلئے Divide and rule کا فارمولا آج تک سب کو یاد ہے اور اس کی مثالیں بھی دی جاتی ہے ۔ انگریز برصغیر سے چلا گیا ہے دعویٰ کیا جاتا ہے اس کو نکالا گیا ہے مگراس کی سوچ کوہم نے اپنا رکھا ہے ۔بے شمار قربانیوں کے بعد یہ ملک ستر سال پہلے معرض وجود میں آیا اور توقعات تھیں کہ یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ انگریز چلے گئے مگر ان کے ماتحت کام کرنے والے لوگ اس ملک پر اسی انداز میں مسلط ہوگئے جس انداز میں خطے کو انگریزوںنے چلایا تھا ۔ بس فرق صرف اتنا ہے گوری رنگت چلی گئی لیکن اپنے خیالات اور انداز حکمرانی ہم پر لاگو کر گئی ۔ اس وقت انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین چل رہے ہیں ۔ ستر سال میں ایک آدھ بار ہی جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہوگی ۔ انگریزوں کے دور میں کرپشن نہیں تھی کیا مگر اس پر کسی نے عمل نہ کیا ۔ کرپشن کی وجہ سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں ۔ ستر سالوں میں جتنے بھی حکمران آئے ان کا ایک ہی نعرہ سب سے زیادہ ہر دلعزیز ہوتا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کئی حکمران خود تو ختم ہوگئے ہیں یا رسوا ہوئے ہیں مگر کرپشن ملک میں رچ بس چکی ہے ۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے کرپٹ ذرائع سے حکومتیں بنائی گئیں سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا اور اس سیاستدانوں کی تذلیل ہوئی مگر کرپشن ان کونا ہرا سکا۔ لمبی داستانیں ہیں کرپشن کی مگر اس کو یہی چھوڑ دیں کیونکہ اس کیلئے بڑی کوششیں کی گئیں مگر سب تاحال بے سود ہیں ۔ انگزیروں نے لوگوں کو آپس میں لڑایا اور انہیں کمزور کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ترقیاتی کا م آج بھی یاد رکھے جاتے ہیں جن میں ٹرینوں کے ٹریک پل وغیرہ شامل ہیں ۔ ستر سال میں ہم جمہوریت کی نقل تک نہ کر سکے ترقیاتی کام کیا کرتے ؟ جو حکمران آئے انہوںنے خاندانی سیاست شروع کر دی ۔ ملک کی خدمت کرنے کے نام پر لوٹ مار کی گئی ۔ یہ ایسا موقف ہے جو آج تک کوئی ثابت نہ کر سکا ۔ ترقیاتی ادارے تو کم بنائے گئے مگر احتساب کے ادارے بڑی تعداد میں بنائے گئے مگر کرپشن ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھ گئی ۔ ادارے آئین کو ایک طرف رکھ کر اپنی من مانی کرنے لگے جزاء اور سزا کا عمل ظاہری رہ گیا ۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہی اپنی مرضی کا انصاف کرنے لگا ۔ احتساب کو بھی انتقام سے طور پر کیا جانے لگا جو آج تک جاری ہے ۔ انگریز بھی مزاحمت کرنے والے کو پہلے اپنے لبادے میں لانے کی بھر پور کوشش کرتے تھے جب وہ قابو نہ آتا تو پھر اس کو غدار قرار دیدیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد غدار قرا ر دیا جانے والا اکیلا نہیں سارے خاندان کے ساتھ سزا بھگتتا ۔یہ اصول بھی ہم لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں آدھا تیتر اور آدھا بیٹر والا حساب کیا ۔
حال ہی میں گلگت بلتستان میں انتخابا ت ہوئے ا س میں بھی شروع دن سے دھاندلی کے الزامات لگنا شروع ہوگئے اور اس تاثر کو مضبوط کیا گیا کہ وفاق میں جتنی بھی ناکام حکومت کیوں نہ ہو کشمیر اور گلگت بلتستان میں وفاق ہی کی نمائندہ جماعت ہی کو اقتدار ملتا ہے ۔ اگر یہ میرٹ ہے تو پھر پچھلی حکومتوں سے کیا گلہ کرنا ۔ ان سیاسی جماعتوں کو بھی شرم آنا چاہئے کہ اگر وہ اقتدار میں تھے اور ان کی پارٹیاں ان متنازعہ علاقوں میں جیت جاتی تھیں تو وہ بہت خوش تھے ۔ اس سارے عمل کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ستر سال پہلے کھڑے تھے ۔ ایک دوسرے کے حقوق سلب کرنا آزادی اظہار کو دبانا ٗ لوگوں کو محکوم رکھنا ٗ اپنے غلام اور طابع دار سیاستدانوں یعنی جاگیر دار کو نوازنا یہ کڑی ستر سال سے چل رہی ہے اور کہیں سے بھی نہیں ٹوٹی ہے ۔ معذرت کے ساتھ ہم علاقائی طور آزاد ہوئے ہیں مگر ذہنی غلامی آج بھی اسی طرح موجود ہے۔