اہراماتِ مصر ، فراعنہ اور قرآن……4

اس مقابلے کی تاریخ اور وقت کی خوب تشہیر کر دی گئی اور ایک کُھلے میدا ن میں مقابلے کا اہتمام ہوا اسے دیکھنے کے لئے تماشبینوں کا جمِ غفیر مصر کے مختلف علاقوں سے جمع ہو گیا۔ مقابلہ شروع ہوا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے اژدھا کا روپ دھار کر فرعونی جادو گروں کے دکھائے گئے سانپوں کو نگل لیا تھا۔   
میں قاہرہ میں قیام کے دوران وہ میدان دیکھنے گیا تھا اس میدان کا نام ’’دَیر بحری ‘‘ہے ۔ اس میدان کے آس پاس فرعونیوں کے محلات کی دیواریں شکستہ حالت میں اب بھی موجود ہیں۔ اور اُس فرعون کا نام رعمسیس تھا۔ اگر ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور فرعون رعمسیس کی حالاتِ زندگی کا ذکر قرآنی تفاسیر اور قصص الانبیاء کے حوالے سے کریں تو فرعون رعمسیس اللہ کی دوسری نا فرمانیوں کے علاوہ بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنائے رکھا تھا انہیں سخت ذہنی اور جسمانی اذیتیں دیتا تھا ایک وقت ایسا آیا کہ جناب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی اور اذیتوں سے نجات دلانے کیلئے بنی اسرائیل کو ساتھ لئے مصر سے نکلے تو فرعون نے کِبروغرور اور غصے سے اپنی فوج کو لیکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں نکلا ۔ فرعون جب اپنی لشکر سمیت حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے قریب پہنچا تو اللہ کی قدرت سے آگ کے شعلے فرعون کے لشکر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اوربنی اسرائیل کے درمیان حائل ہو گئے اتنے میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے لوگ بحرِقلزم کے ساحل پر پہنچ گئے ، آگ کے شعلے جب بجھ گئے تو فرعون اور اس کے لشکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب جاری رکھا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نہتے تھے جب کہ فرعون اور اس کا لشکر سامانِ حرب سے لیس تھے سامنے سمندر تھا بنی اسرائیل خوف زدہ ہو گئے کہ کریںکیا؟ اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ ؑ کو حکم ہوا ’’اِضرب بعصاک البحر‘‘ موسیٰ علیہ السلام اپنی لاٹھی سمندر پرمارو۔ حضرت موسیٰ نے اپنا عصا جب سمندر پر مارا تو سمندر دو حصوں میں بٹ گیا بیچ میں خشک راستہ بن گیا حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل بحفاظت پار نکل گئے اتنے میں فرعون اپنے لشکر سمیت ان کے تعاقب میں سمندر کے راستے میں داخل ہوااور اللہ نے سمندر کے دونوں حصوں کو آپس میں ملنے کا حکم دیا سمندر کے دونوں حصے آپس میں مل گئے اور فرعون لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔ بلکہ تحقیق سے اس کی موت کی اصل وجہ بھی معلوم کرے چنانچہ جب فرعون کی ممی کو فرانس ائیر پورٹ پر لایا گیا۔ تو فرانس کے اُس وقت کے صدر ،صدر متراں کے ساتھ اس کی پوری کابینہ اور فرانس کی اعلیٰ قیادت نے فرعون کی ممی کا اس طرح استقبال کیا جسطرح بین الاقوامی پروٹوکول کے اصولوں کے مطابق کسی ملک کے زندہ بادشاہ کا کیا جاتا ہے ۔ جہاز سے اتارنے کے بعد فرعون کی ممی کو قابلِ ترین فرانسیسی ڈاکٹروں کی ٹیم کے حوالے کیا گیا۔ جس کے سربراہ دنیا کا مشہور سرجن اور فزیشن ڈاکٹر مورس بقائی تھے۔ چنانچہ مائیکرو سکوپ کے ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ فرعون کی لاش میں سمندری نمک کے ذرات کے آثار موجود ہیں جو اِس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ فرعون خشکی پر اپنی طبعی موت نہیں مرا تھاجیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا خیال ہے بلکہ سمندر میں ڈوب کر مرا تھااور اس کی لاش کو سمندر سے نکال کر حنوت کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کی اس تحقیق کے بعد جو مورس بقائی رپورٹ مرتب کر رہے تھے تو ان کو جو خبر پہنچی جو یہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس جو الہامی کتاب (قرآن) ہے اسمیں فرعون کا ذکر موجود ہے اور اس میں لکھا ہوا ہے کہ فرعون سمندر میں غرق ہو ا تھا مگر اس کی لاش کو اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے سمندر کے ساحل میں محفوظ کیا تھا اس خبر کو سننے کے بعد مورس بقائی ا س قدر حیرت زدہ ہوگئے کہ اصل حقیقت معلوم کرنے کیلئے مصر روانہ ہو گئے ۔ مصر میں معروف مصری مسلمان سائنسدانوں اور قرآن مجید کے محققین سے ملے تو انہوں نے ڈاکٹر مورس بقائی کا اچھے انداز میں استقبال کیا گفتگو کے دوران مسلمان مصری سائنسدانوں نے قرآن مجید سے سورۂ یونس کی آیات 91, 90اور 92کی تلاوت : ترجمہ اور مسلمان مفسرین کی تفاسیراُن کو سنائیں جن میں فرعون کا بحرِ قلزم میں غرق ہونے کا اور پھر اس کی میت محفوظ رہنے کا ذکر ہے ، آیات کا ترجمہ اس طرح ہے۔ ’’اور پھر ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا ، تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور تعدّی سے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ جب اُس (فرعون) کو غرق کے عذاب نے آپکڑا تو کہنے لگامیں ایمان لایا اس خدا پر جس خدا پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں ۔ جواب ملا کہ کیا اب تو ایمان لاتا ہے ؟ حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسِد بنا رہا تو آج ہم تیرے بدن کو دریا سے نکال لیں گے تا کہ تُو آئندہ آنیوالے لوگوں کے لئے عبرت ہو ۔بہت سے لوگ تو ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔ ‘‘ان آیات کو سننے کے بعد ڈاکٹر مورس بقائی حیرانی کے عالَم میں کہنے لگے کہ یہ کتاب ’قرآن ‘فرعون کی موت کے دو ہزار سال بعد نازل ہوا ، اس وقت کے بعد آج تک کوئی فرعون کی ممی کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ قرآن کے نزول کے چودہ سو سال بعد فرانس نے فرعون کی ممی پر تحقیق کرنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا وہ ہو بہو وہی ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے یقیناً یہ قرآن اللہ کی نازل کی ہوئی کتا ب ہے ۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر مورس بقائی مسلمانوں کے ایک بہت بڑے اجتماع میں مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ اور کلمہ طیبہ   لَا اَلٰہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھ کر مسلمان ہوا۔ مسلمان ہونے کے بعد قرآن پر مزید تحقیق شروع کی اور قرآن کی تحقیق کی روشنی میں ڈاکٹر مورس بقائی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام انہو ں نے بائبل ، قرآن اور سائنس رکھا۔ جس نے قرآن کے حوالے سے سائنسی معلومات کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن