قومی سیاسی قائدین اپنی اپنی انائوں کے خول سے باہر نکلیں اور کرونا سے قومی صحت کو محفوظ کریں
وزیراعظم عمران خاں نے پشاور میں کرونا کیسز کے تیزی سے بڑھنے کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسے کے اعلان پر ردعمل میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم قائدین عوامی تحفظ سے کھیل رہے ہیں۔ گزشتہ روز اپنے ٹویٹر پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ سخت لاک ڈائون کے خواہش مند پی ڈی ایم ارکان غیر ذمہ دارانہ سیاست کر رہے ہیں اور اس طرح وہ عوامی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ پی ڈی ایم ارکان عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلسے کر رہے ہیں اور پشاور جلسہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب کرونا کیسز ڈرامائی طور پر بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے بقول پی ڈی ایم کے جو ارکان پہلے سخت ترین بندشیں چاہتے تھے اور مجھ پر تنقید کر رہے تھے وہ آج لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال کر عاقبت نااندیشانہ سیاست کر رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ عدالتی احکامات ہوا میں اڑا کر کیسز میں نہایت تیز اضافے کے باوجود جلسوں پر مصر ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ذاتی مفاد کے لئے عوام کی زندگیوں سے کھیلنا بڑی خودغرضی ہے۔ اگر پی ڈی ایم کے جلسے کے باعث خیبر پی کے میں کرونا کیسز بڑھے تو اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف مقدمے درج کرائے جائیں گے۔
یہ امر واقع ہے کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر نے پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے چنانچہ کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بھی آج مجموعی چھ کروڑ تک جا پہنچی ہے اور ہلاک شدگان کی تعداد پندرہ لاکھ سے بھی تجاویز کر چکی ہے۔ اگر کرونا وائرس کے سدباب کے لئے وسائل سے مالا مال ترقی یافتہ ممالک بھی سخت ترین حفاظتی اقدامات اٹھانے اور علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں موجود ہونے کے باوجودکرونا کا پھیلائو روکنے اور انسانی ہلاکتوں کا تناسب کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو وسائل میں کمی اور علاج معالجہ کی ناکافی سہولتیں ہونے کے باعث ہمیں تو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس وقت اپنے پڑوسی ملک بھارت کی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھنا چاہئے جہاں کرونا کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کو رکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہی اور وہاں گھروں میں موجود کرونا کے مریضوں کی بھی روزانہ سینکڑوں ہلاکتیں رپورٹ ہو رہی ہیں جن کی آخری رسومات کی ادائیگی میں بھی دقت پیش آ رہی ہے اس تناظر میں ہمارے ملک میں روا رکھی جانے والی بداحتیاطی سے تو ہمیں بھارت سے بھی ابتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ اس وقت بھی کرونا وائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس وقت متعدد سیاسی قائدین اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیات بھی کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران کرونا کے مزید 42 مریض جاں بحق ہوئے ہیں اور 2843 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
اسی بنیاد پر حکومت کی جانب سے کرونا کا پھیلائو روکنے کے لئے جزوی اور سمارٹ لاک ڈائون جیسے سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ شادی ہالز اور پبلک مقامات پر بڑے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کا شیڈول بھی طے کیا جا رہا ہے جبکہ کرونا کے زیادہ پھیلنے کے باعث حکومت مکمل لاک ڈائون کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے جس سے اب تک گریز کیا جاتا رہاہے چنانچہ یہ صورت اس امر کی متقاضی ہے کہ ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کر کے مکمل لاک ڈائون کی نوبت نہ آنے دی جائے کیونکہ ہماری معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ملک میں پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کی کوئی انتہا نہیں رہی ، اگر مکمل لاک ڈائون کی نوبت آ گئی تو عام آدمی کی زندگیاں کرونا وائرس کے مضمرات سے بھی زیادہ بدحال ہو سکتی ہیں۔
اس تناظر میں آج قومی سیاسی ، دینی اور سماجی قیادتوں کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس نازک صورتحال سے عہدہ براء ہونے کے لئے باہمی افہام و تفہیم سے بڑے اجتماعات روکنے کے لئے متفقہ لائحہ عمل طے کریں اور قومی صحت کے تحفظ کے اقدامات کو کسی انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کے لئے وفاقی حکومت کے پابندیوں سے متعلق فیصلے پر صاد کیا ہے اور قومی قیادتوں پر زور دیا ہے کہ وہ وسیع النظری کا مظاہرہ کریں اور قومی صحت کے معاملات کو بھی مقدم رکھیں۔ ہمارے سیاسی کلچر میں بدقسمتی سے بلیم گیم کا سلسلہ اتنا گہرا ہو گیا ہے کہ اس میں ملکی اور قومی مفادات کی بھی پاسداری نہیں کی جاتی اور باہمی کھینچاتانی میں رواداری اور شائستگی کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔ چنانچہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل اور اس کی حکومت مخالف تحریک سے سیاسی محاذ آرائی انتہاء کو جا پہنچی ہے جس میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کے لئے پبلک جلسوں میں عوام کو استعمال کر کے ان کی زندگیوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ریس لگی رہی ہے اور باوجود اس کے کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر شدت سے پھیلتی نظر آئی حکومت نے بھی پی ڈی ایم کے جلسوں کے توڑ کے لئے وزیر اعظم کے جلسوں کا انعقاد شروع کر دیا جبکہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے موقع پر تو پبلک جلسوں کے معاملہ میں بے احتیاطی دوطرفہ نظر آئی جس کا اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی نوٹس لیا۔
اب حکومت کی جانب سے پبلک جلسے اور تقاریب روک کر اپوزیشن سے بھی پبلک جلسوں کا سلسلہ ختم کرنے کا تقاضہ کیا جا رہا ہے جس پر اپوزیشن آمادہ نظر نہیں آ رہی اور اس نے -22 نومبر کے اپنے پشاور جلسے کا شیڈول برقرار رکھا۔
اس سے جہاں کرونا کے زیادہ شدت سے پھیلنے کا خطرہ لاحق ہو گا وہیں اس سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی کشیدگی بھی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ اسلئے دانشمندی کا یہی تقاضہ ہے کہ حکومت کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لئے خود پیش رفت کرے اور آل پارٹیز کانفرنس کی شکل میں قومی سیاسی ، مذہبی قائدین کا مشترکہ اجلاس بلا کر اپوزیشن کو اپنی سیاسی احتجاجی تحریک مؤخر کرنے پر قائل کرے۔ اپوزیشن قائدین کو بھی یقیناً کرونا وائرس کی پیدا شدہ موجودہ صورت حال کا ادراک ہو گا اس لئے انہیں باضابطہ طور پر حکومت کی جانب سے مشاورت کے لئے مدعو کیا جائے تو وہ قومی صحت کے تحفظ کی خاطر اپنی تحریک مؤخر کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں اسوقت اپنی اپنی انائوں کے خول سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔