پاکستان میں کرونا کی وبا کی دوسری لہر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا اور خاص طور پر پاکستان کو کرونا کی دوسری لہر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ ماضی میں پھیلنے والی بڑی عالمی وبائوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر میں ایک کے بعد دوسری لہر اور کچھ صورتوں میں ایک تیسری لہر بھی آئی تھی۔ ان میں سب سے پہلی اور سب سے بڑی وبا 1889 میں شروع ہو کر 1892 دو مراحل مکمل ہونے کے بعد ختم ہوئی ۔ 1918 میں شروع ہونے والے ’’ سپینش فلو‘‘ وبا جس کا اختتام 1992 میں ہوا کے بھی دو مراحل ہوئے تھے۔ اسی طرح 1857-58 کے دوران انفلوئنزا کی عالمی وبا بھی دو مراحل کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی۔ جب بھی وبائی امراض کے بارے میں بات ہوتی ہے تو ان بڑی عالمی وبائوں کو دیکھ کر ہی اندازے لگائے جاتے ہیں کہ کسی ممکنہ وبا کا کیا انجام ہو گا۔ وبا کی پہلی لہر کے ساتھ ہی عوام میں اس وبا کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔ حکومت اور عوام دونوں حرکت میں آتے ہیں ، احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ جب وبا دب جاتی ہے اور لگتا ہے کہ وبا کو شکست ہو گئی ہے تو لوگ احتیاط اور حکومت زیادہ سختی چھوڑ دیتی ہے۔ نتیجے میں وبا کو ایک بار دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ اکثر اوقات دوسری لہر پہلی لہر سے زیادہ خطرنا ک ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایک تو عوام پہلی لہر کے دوران احتیاظی تدابیر پر عمل کر کر کے تھک چکے ہوتے ہیں ، دوسرا ان کہ یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ بیماری کو شکست دی جا چکی ہے، اور سب سے اہم یہ کہ پہلی لہر کے دوران بیماری تمام ملک میں پھیل چکی ہوتی ہے اس لیے دوسری لہر کے دوران اسکا پھیلائو بہت زیادہ تیزی سے ہوتا ہے۔
اگر ہم دیکھیں تو آج پاکستان میں یہی سب کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ عوام لاک ڈائون سے ہی تنگ آ چکے ہیں۔ حکومت کی مجبوری ہے کہ سب کچھ کتنے عرصے تک بند رکھا جا سکتا ہے؟ آخر کاروباری زندگی کو چلانا بھی ہے اور ہماری عوام حکومت کی اس مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جو کچھ کر رہی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ کہیں کہا جا رہا ہے کہ کرونا شرونا کچھ تھا ہی نہیں تو کہیںخیال ہے کہ کرونا ختم ہو چکا۔ کچھ لوگ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ موت کا دن معین ہے۔ بالکل ٹھیک، لیکن دعا اور اللہ پر توکل کے ساتھ ساتھ تدبیر اور اسباب کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔حکومت کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لے کر اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ پالیسی بنا کر ’’ پریس کانفرنس‘‘ کی بجائے متعلقہ SOPs پرسختی سے عمل کروانا چاہئیے۔ اسی طرح اپوزیشن پر بھی لازم ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ بلکہ عوام پر رحم کرے ۔سیاست کرنے کے لیے عمر پڑی ہے۔ اگر جلسے جلوسوں اور تحاریک کو کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا جائے تو بہت بہتر ہو گا۔
جہاں امریکہ اور یورپ بری طرح سے اس وبا کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں وہاں پاکستان میںحالات بظاہر ابھی قابو سے باہر نہیں ہوئے لیکن جس تیزی سے کرونا کے کیسز میں ایک بار پھر اصافہ ہو رہا ہے وہ تشویشناک ہے مگر ہماری عوام اس دوسری لہر کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ بلا شبہ ابھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ تمام کاروبار زندگی کو بند کردیا جائے لیکن کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں حکومت کو زیادہ سختی دکھانی چاہئیے تھی۔ کاروبار تو بند نہیں کیے جا سکتے لیکن شادی بیاہ کی تقریبات کے بارے میں غیر ضروری نرمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شادی ہال کے باہر تین سو تک مہمانوں کے جتماع کی اجازت ہے۔ کیا ہال کے باہر لوگ ا کٹھے ہوں گے تو کرونا نہیں پھیلے گا؟ اور اگر خدانخواستہ یہ وبا پھیل رہی ہے توتین سو کا اجتماع بھی بہت زیادہ اور خطرنا ک ہے۔ساتھ یہ اعلان کہ شادیوں میں تمام لوگ ماسک لگا کرشرکت کریں گے سننے کی حد تک بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن عملی طور پر کیا ہماری عوام اور خاص طور پر خواتین شادیوں میں ماسک لگا کر شرکت کریں گی؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ میرے خیال میں شادیوں اور اس قسم کے غیر ضروری اجتماعات پر مکمل اور سخت پابندی عائد کی جانی چاہئیے۔ بلکہ شادی کو ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نکاح کی تقریب میں تبدیل کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ کرونا سے بچائو بھی ہو گا اور بہت سی بیٹیو ں کے والدین دعائیں بھی دیں گے۔اسی طرح عملی طور پر گلیوں بازاروں میں نہ تو ’’ سماجی فاصلہ ـ‘‘ نظر آ رہا ہے اور نہ کوئی چہرے پا ماسک لگائے نظر آتا ہے۔ سکولوں ،کالجوں، مارکیٹوں اور دیگر عوامی جگہوں پر ہینڈ سینیٹائزر اور ہاتھ دھونے کے انتظامات بھی نہ ہونے کے برابر نظر آ رہے ہیں۔ پہلی لہر کے دوران اس قسم کے جو انتظامات میڈیا پر دکھائے گئے تھے وہ سب ’’ فوٹو سیشن‘‘ کے بعد عملی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں عوام کو بار بار یہ یاد کروانے کی ضرورت ہے کہ اگر پانی موجود ہو تو ہاتھوں کو پانی اور صابن سے دھونے سے بہتر کوئی بچائو نہیں ہے۔یہ طریقہ سستا بھی ہے اور زیادہ موئثر بھی۔ عوام کو بھی اپنے طور پر یہ سمجھنا ہو گا کہ ان دنوں میں گھومنا پھرنا، رشتے داروں سے ملنا ملانا، کھانے اور پارٹیاں ’’ گنا ہ ‘‘ ہیں۔کوئی بھی ایسا اقدام جو آپکی، آپکے بچوں ، جاننے والوں اور آپکے ارد گرد کے لوگوں کی صحت اور زندگی کے لیے خطرنا ک ہو اسے میں تو ’’ گناہ‘‘ بلکہ گناہ کبیرہ ہی کہوں گا۔
یہ بھی اہم ہے کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران ہم سے جو غلطیاں ہوئیں ان سے سبق سیکھا جائے اور مسقبل میں ان کو نہ دہرایا جائے۔کرونا کا ایسا خوف چھایا تھا کہ ہے کہ کوئی بھی ایسا مریض جسے بخار یا سانس کا کوئی مسئلہ ہو ، اسے ہسپتال میں داخل کرنا ، یا معائینہ کرنا تو بہت دور کی بات کوئی اسے ہاتھ لگا نے کو بھی تیار نہیںتھا۔بڑے پرائیوٹ ہسپتال والوں کی کوشش تھی کہ ہر مریض بس کرونا وارڈ میں داخل ہو جائے تاکہ اسے کرونا نہ بھی ہو تو بھی ہو جائے، اور لاکھوں کے بل بنتے رہیں۔ مسیحا ہونے کا اعلان کرنے اور مسیحائی میں بہت فرق ہے ۔امید ہے کہ اگر خدانخواستہ کرونا کے مریضوں میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے تو ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ ذہنی طور پر تیار ہونگے اور تما م مریضوں کو فوری اور درست علاج ملتا رہے گا۔حکومت کو اس پہلو پر بھی عقابی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔