پاکستان پیپلزپارٹی جدوجہد اور شہاتوں کا سفر 

Nov 23, 2021

نذیر ڈھوکی

اسلام ہمارا دین ہے ،سوشلزم ہماری معیشت ہے ،جمہوریت ہماری سیاست ہے ،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ اس منشور کے ساتھ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967 میں  پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی ، قائد عوام کے منشور کو دیکھ کر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ  پیپلزپارٹی شامل ہوتے رہے جن میں جاگیردار بھی شامل تھے ۔سرمایہ دار بھی اور سردار بھی مگر حقیقیت یہ ہے کہ بنیادی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی مدتوں سے استحصال کے شکار غریبوں، محنت کشوں مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کی جماعت کے طور پر سامنے آئی ، اگر یہ کہا جائے تو بھی درست ہوگا کہ پیپلزپارٹی کی بنیاد ہی ایک خوبصورت تبدیلی تھی ۔  قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے شعور کی ایسی شمع جلائی جو تابناک سورج میں تبدیل ہوگئی ، کچلے ہوئے محرومیوں کے شکار پسے ہوئے لوگوں کو شعور اور زبان مل گئی ،ننگے پاوں پھٹے ہوئے لباس والوں کو حوصلہ اور طاقت ملی کہ سیاسی  تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کے جلسوں میں سرمایہ داری مردہ باد ،جاگیرداروں مردہ باد ،وڈیرا شاہی مردہ باد ،نوکر شاہی مردہ باد  اوررجعت پسندی مردہ باد کے نعرے گونجنے لگے اس طرح ایک ایسا انقلاب آیا سیاست محلات سے نکل کر مٹی میں اٹی ہوئی گلیوں میں بنے ہوئے کچے گھروں کے کے دروازوں پر تعبیدار بن کر کھڑی ہوگئی یہ کارنامہ سحر انگیز شخصیت قائد عوام کا تھا  پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد  ذوالفقار علی بھٹو 
کا بیانیہ یہ تھا حکومت بنانے کا اختیار صرف عوام کا ہے نہ کہ چند مراعات یافتہ لوگوں کا ،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی جدوجہد رنگ لائی اور عوام کو ووٹ کا حق ملا ۔1970 میں عام انتخابات ہوئے ،بقول عظیم شاعر حضرت جوش ملیح آبادی کے کہ " 1970 کے انتخابات میں مقابلہ ہوا ایک طرف جنت کے خواب اور کفر کے فتوے دینے والے تھے دوسری طرف روٹی ،کپڑا اور مکان جیسی انسانی ضروریات کا نعرہ تھا، عوام نے کفرکے فتوے  اور جنت کے خواب دکھانے والوں کو مسترد کرکے انسانی زندگی کی ضرورت روٹی ،کپڑا اور مکان کے منشور کے حق میں اپنا فیصلہ سنادیا ۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی زیر قیادت پہلی عوامی حکومت اقتدر میں آئی جس نے نوکر شاہی کے سارے نخرے ختم کردئیے ، آپ 1970 تک کے اخبارات کھنگال کر دیکھیں ملک میں بیورو کریسی کا راج تھا ، مگر 20 دسمبر کے بعد حقیقی معنی میں عوامی راج قائم ہوا تو نوکر شاہی عوام کی خادم بن گئی ،مدتوں سے سیاسی اور معاشی استحصال کے شکار عوام یہ جرات پیدا ہوئی کہ نگے پاوں اور پھٹے ہوئے لباس والے نوکر شاہی سے اپنے حقوق پر بحث کرتے اور اپنے حقوق حاصل کرکے رہتے ۔  پیپلزپارٹی نے عملی طور عام پاکستانی کو معاشی طور مضبوط کیا اس حوالے سے غریبوں کے بچوں کیلئے اعلی ملازمتوں کے وسائل پیدا کیئے کسانوں، مزدورں کے بچوں کو ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمتیں ملیں،  عام شہریوں کو پاسپورٹ ملا اور عوامی حکومت نے دنیا بھر میں جاکر روزگار کرنے کیلئے سہولیات فراہم کی ، یہی روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعرے کی فلاسفی تھی جس میں سوشلزم ہماری معیشت کی عکاسی تھی ، اگر چہ پیپلزپارٹی کوئی مذہبی جماعت نہیں تھی مگر اس کے قائد نے دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد پیدا کیا جو لاھور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد  کی صورت میں سامنے آیا ، پیپلزپارٹی کے مخالفین اکثر بیان بازی کرتے رہے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی ایک خاندان کی میراث ہے مگر اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن اور حامی صرف ایک خاندان کی قیادت پر کیوں اعتماد کرتے ہیں ؟ اس کی بنیادی وجہہ یہ ہے بھٹو خاندان واحد سیاسی خاندان ہے جو پارٹی کے بنیادی اساس پر ثابت قدم ہے یہی وجہہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دو چیئرمین کی موت طبی نہیں ہوئی ایک کا عدالتی قتل ہوا دوسرے کو راولپنڈی میں سرعام قتل کیا گیا ، اصل بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو سیاسی میدان میں شکست دینا ناممکن تھا ، دیکھا جائے تو ریاستی سطح پر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف الزام تراشی اور مہم جوئی کو آج 54 سال ہو رہے ہیں کبھی کفر کے فتوے، کبھی ملک توڑنے کی تہمت ،کبھی دہشت گردی کا الزام ہر عہد میں الزامات کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی 1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی تو کرپشن کے الزام نے جنم لیا ،اسٹیبلشمنٹ کے منشی خانے میں مشقت کرنے والے ریاستی اعانت سے پیپلزپارٹی کے خلاف کردار کشی کی مہم چلاتے رہے ، مگر پیپلزپارٹی کے جیالے اور ہمدرد ہر طرح کے الزام کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرتے رہے ، یہ حقیقت اظہر من الشمس کی طرح روشن ہے کہ گذشتہ 54 سال کے دوران جس طرح پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں کا قتل عام ہوا ہے اتنے انسان تو دو ممالک کے درمیان جنگ میں بھی ہلاک نہیں ہوئے ، پیپلزپارٹی کے جیالے پھانسی کے تختہ دار پر گئے قلندری دھمال ڈالتے ہوئے گئے اپنے قائد شہید ذوالفقارعلی کی طرح عظمت اور ہمت سے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے ، جیالوں کی نگی پیٹھوں پر کوڑے پڑے تو ہر کوڑے پر جیئے بھٹو کے نعرے لگاتے رہے ، جیل گئے تو جیلوں کو مسکن بنادیا ،پیپلزپارٹی کے جیالوں اور ہمدردوںکو یہ اندازہ تھا کہ 18 اکتوبر 2007 کو ان کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر خطرناک حملا ہو سکتا ہے مگر ہر خطرے کو نظر انداز اور اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر کراچی پہنچے سیکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق 30 لاکھ عوام نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا تاریخی استقبال کیا پھر یہ منظر بھی میڈیا نے کیمرے میں محفوظ کردیا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر بم حملوں سے جیالے بھاگے نہیں گبھرائے نہیں اپنی بہین کی زندگی بچانے کیلئے ڈھال بن گئے اور بارود کی آگ کو اپنے جسموں سے روکا ،   گذشتہ کچھ سالوں سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی ختم ہوکر ایک صوبے تک محدود ہوگئی ہے ان کیلئے سابق صدر غلام اسحاق خان کا بیانیہ کی کافی ہے کہ اگر سندھ اور پنجاب کی سرحد صادق آباد کے مقام پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پیپلزپارٹی کا راستہ نہ روکا جائے توپیپلزپارٹی پنجاب اور سرحد میں فتح حاصل کر سکتی ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اب نوجوان جناب بلاول بھٹو زرداری سنبھال چکے ہیں جس کے وجود میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی نظر آتے ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی ،ابھی انہیں عملی سیاست میں قدم رکھے ساڑھے تین سال ہوئے ہیں مگر انہوں نے اپنی صلاحیت سے سینیئر سیاستدانوں کو کئی میل پیچھے چھوڑ دیا ہے ، پیپلزپارٹی کے جیالوں کو اطمینان ہے کہ رہنمائی آصف علی زرداری کی ،قیادت بلاول بھٹو زرداری کی اور فتح عوام کی ۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے نانا اور والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی طرح میدان میں مین ہیں پارٹی کے بنیادی منشور کے منشور کے ساتھ ، پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی کال کوٹھڑی میں لکھی ہوئی تحریر میں کہا تھا کہ وقت بتائے گا کہ آخری قہقہہ کون لگاتا ہے، 18 آئینی ترمیم پر دستخط کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کے چہرے پر بھرپور مسکرہٹ تھی حالات بتاتے ہیں کہ مستقبل کے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہونگے۔جو پارٹی منشور لیئے آگے بڑہ رہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جمہوریت کی جیت پر وہ قہقہہ آصف علی زرداری کا ہوگا

مزیدخبریں