وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ ایل این جی اور سردیوں میں ہونیوالے گیس بحران کا آپس میں کوئی تعلق نہیں‘ گھریلو سطح پر گیس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ معاہدے کے مطابق ایل این جی کے 14 کارگو نہیں لے سکتے ،ایک سال میں 4.5 ملین ٹن کے حساب سے ہی کارگو لے سکتے ہیں۔ ملک میں گیس کا بحران کوئی نیا نہیں‘ بالخصوص موسم سرما میں گیس کی شدید لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کوہر سال ذہنی اذیت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ بعض شہروں میں موسم گرما میں بھی عوام کو گیس سے محروم رکھا جاتا ہے جس سے گھریلو خواتین کو کھانا پکارنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گیس لوڈشیڈنگ کیخلاف عوام کئی بار سڑکوں پر بھی آچکے ہیں لیکن یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے جوں کا توں ہی برقرار ہے۔ وفاقی وزیر توانائی کے بقول گیس کی مانگ بڑھ رہی ہے اور بلوچستان میں پایا جانیوالا گیس کا ذخیرہ کہیں نہیں مل رہا‘ ایسے بیانات عوام میں مزید مایوسی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ملک میں گیس کی قلت ہے تو اسے پورا کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں گیس کے وسائل جہاں بھی دستیاب ہوں‘ حکومت کو لے لینے چاہئیں تاکہ عوام کو گیس مل سکے۔ حکومت نے گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کرنے کا دعویٰ کیا۔ اسکے باجود گھریلو صارفین گیس سے محروم ہیں۔ گیس بحران کے پیچھے سلنڈر مافیا کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے جو بااثر افراد کی ملی بھگت سے گیس کی مصنوعی قلت پید ا کرکے عوام کو مہنگے داموں سلنڈر خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ حکومت کو گیس بحران کے اصل محرکات کا کھوج لگانا چاہیے۔ بلوچستان ذخائر سے مالامال ہے‘ لیکن اس سے کسی دور میں بھی استفادہ نہیں کیا گیا۔ بلوچ عوام کو بھی بلوچستان کے وسائل سے مستفید کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بلوچستان کے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے متعدد ترقیاتی پیکیج لائے گئے مگر انہیں عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔ چنانچہ بلوچستان آج بھی پسماندگی میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ موجودہ حکومت بلوچ قوم پرستوں کو سیاست کے قومی دھارے میں لا کر انکی معاونت سے ترقیاتی کاموں کا آغاز کرکے اور بلوچ نوجوانوں کو ملازمتوں میں مساوی مواقع دیکر وفاق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقع دے تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچ عوام کی مایوسیوں کا ازلہ ہو سکے۔