وحید مراد کی 38ویں برسی کے موقع پر انکی سینئر ساتھی اداکارہ سے خصوصی گفتگو

۔۔۔۔۔۔۔
عنبرین فاطمہ 
’’وحید مراد‘‘ پاکستان فلم انڈسٹری کے وہ ہیرو ہیں جنہیں جتنی شہرت ملی وہ شاید کسی بھی فنکار کا خواب ہی ہوسکتی ہے،انہیں دنیا سے گزرے ہوئے بھی 38 برس بیت چکے ہیں لیکن آج بھی ان کے مداح انہیں دیوانہ وار پسند کرتے ہیں۔ان کی سحر انگیز شخصیت کاجا دو آج بھی برقرار ہے۔وحید مراد نے اردو فلموں سے شروعات کی لیکن وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انہوں نے پنجابی فلموں کا رخ بھی کیا وہاں بھی انہیں بے حد پسند کیا گیا ان کی ایک فلم تھی ’’مستانہ ماہی‘‘ جس کے پرڈیوسر وہ خود ہی تھے انہوں نے اس میں فلمسٹار عالیہ اور نغمہ کیا کو کاسٹ کیا فلم سپر ہٹ رہی آج بھی اس کے گانے مقبول ہیں ہم نے وحید مراد کی برسی کے موقع پر اسی فلم کی ایک ہیروئین ’’نغمہ بیگم‘‘ سے خصوصی بات چیت کی انہوں نے فلم مستانہ ماہی کی شوٹنگ سے جڑی یادوں کو تازہ کیا اس کے علاوہ انہوں نے وحید مراد کی شخصیت اور ان کے آخری وقت کی کہانی بھی سنائی۔ نغمہ بیگم نے کہا کہ وحید مراد بہت ہی اچھے آرٹسٹ تھے لوگ انہیں پسند بھی بہت کرتے تھے ،میں نے ان کے ساتھ کام بھی کیا نہایت شائستگی سے پیش آتے تھے ،بنیادی طور پر وہ احساس والے انسان تھے اور اسی احساس میں ان کا انتقال بھی ہو اان کے ایکسیڈینٹ کے بعد وہ بہت دل شکستہ تھے اور مجھے بہت دکھ ہے کہ انہوں نے اس بات کو کیوں اپنے دل پہ اتنا لیا اتنے کیوں جذباتی ہو گئے کہ خود سے اور اپنوں سے ہی دور ہو گئے۔جس رات وحید مراد کا انتقال ہوا میں اسی رات ان کو دیکھنے کیلئے گئی ،انکی فیملی نے امریکہ سے آنا تھا لہذا ان کو سرد خانے میں رکھ دیا گیا میں نے دو تین دن وہیں گزارے ،مجھے ایک دھچکا سا لگا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا جو ہو گیا ہے۔وحید مراد آخری دِنوں میں جن کے گھر رہ رہے تھے میری ملاقات اس خاتون سے ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ آخر یہ سب کیسے ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی وجہ سے اختلافات ہو گئے تھے ان کی اہلیہ ناراض ہو کر بچوں کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں تھیں یہ اپنے گھر میں اکیلے تھے ہم انہیں اپنے گھر میں لئے آئے تاکہ ان کو اکیلے پن کا احساس نہ ہو جس رات ان کا انتقال ہونا تھا اْس رات ہم دونوں میاں بیوی وحید مراد کے پاس دو بجے تک بیٹھے رہے اور دو بجے کے بعد ہم نے انہیں کہا کہ اب ہم سونے جا رہے ہیں آپ بھی آرام کیجیے اور یہ گھنٹی لگی ہوئی ہے زرا بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بیل دے دیجیے گا ہم حاضر ہو جائیں جائیں ،صبح جب میرے شوہر نے آکر دیکھا تو جہاں گھنٹی لگی ہوئی تھی وہاں وہ گرے ہوئے تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا دیکھ کر کہ وہ گھنٹی بجانا چاہ رہے تھے لیکن نہیں بجا سکے اور گر گئے اور جب گرے کہیں اسی وقت ان کے ہاتھ کی گھڑی بھی رک گئی تھی اور گھڑی کوئی صبح چار بجے رکی۔ان کے گلے میں پان تھا کہیں انہوں نے پان کھایا اور آنکھ لگ گئی اور پان ان کے گلے میں پھنس گیا۔مجھے بہت پشیمانی ہے کہ کیوں نہ کسی کو ان کے پاس چھوڑا لیکن وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اس لئے کسی کو وحید مراد کے پاس نہیں چھوڑا کیونکہ وحید مراد نے ایسا کچھ کہا نہیں تھا تو ہمیں ایسا لگا کہ شاید وہ کمفرٹبیل نہیں ہیں کہ کوئی ان کے پاس ٹھہرے۔
نغمہ بیگم نے چونکہ وحید مراد کے ساتھ سپر ہٹ فلم ’’مستانہ ماہی ‘‘ میں بھی کام کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ جب وحید مراد نے انہیں فلم میں لیا تو وہ بس یہی دعا کررہی تھیں کہ یہ فلم ہٹ ہوجائے کیونکہ وحید مراد کی پہلی پنجابی فلم ہے کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ نغمہ اور عالیہ کو لیکر فلم بنائی اور فلاپ ہو گئی ،مزید نغمہ بیگم نے اسی فلم سے جڑا ایک وقعہ سنایا کہنے لگیں کہ وحید مراد نے کہا کہ آپ کو کراچی آکر بھی شوٹ کرنا ہو گا ،نغمہ کے مطابق کہ وہ سمجھیں کہ شاید کراچی کی کچھ جگہیں دکھانی ہوں گی خیر سارا یونٹ کراچی پہنچ گیا اور وہاں جا کر دیکھا کہ سیٹ تو ان ڈور ایسٹرن سٹوڈیو میں لگا ہوا ہے نغمہ کو دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ یہ سیٹ تو لاہور میں بھی لگ سکتا تھا اتنا پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرروت تھی، کہتی کہ میں نے وحید مراد سے کہا کہ یہ سیٹ لاہور میں بھی لگ سکتا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ صرف کراچی میں ہی کیوں لگایا گیا تو وحید مراد نے کہا کہ میں نے شروع کے دنوں میں یہاں بہت کام کیا اور یہاں کے لوگ اب مجھ سے ناراض رہنے لگے ہیں کہتے ہیں کہ جب آپ کو اللہ نے عزت دی تو یہاں کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہمارا بھی سوچیں ہمیں بھی کام دیں تو ان کی یہ باتیں سن کر مجھے دکھ ہوا اور احساس ہوا کہ ان کو بھی تو کام کی ضرورت ہے تو ان کا دل رکھنے اور ان کو مدد کرنے کیلئے میں نے اتنا پیسہ خرچ کیا کراچی سارا یونٹ بلوایا اور یہاں سیٹ لگایا تو ان کی بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں بہت متاثر بھی ہوئی۔وہیں پر میری ملاقات بد ر منیر سے بھی ہوئی بد ر منیر اس وقت فلموں میں آچکے تھے ان کا نام بن چکا تھا لیکن وہ وحید مراد کے پاس لائٹ مین کے طور پر کام کرتے تھے،بدرمنیر نے کہا کہ مجھے لائٹ مینی نے اتنا نام دیا ہے میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا کرتا رہوں گا۔میں جب مستانہ ماہی کی شوٹنگ کررہی تھی تو مجھے بہت شوق تھا کہ سنوں کہ وحید مراد پنجابی بولتے کیسے لگتے ہیں تو جب وہ پنجابی بولتے تو بہت اچھے لگتے تھے ان کو پنجابی سوٹ کرتی تھی۔
میں جب کراچی سے فلم کرکے لاہور واپس آئی تھی مجھے بہت سار ے آرٹسوں نے پوچھا کہ وحید مراد کیسا ڈیل کرتے ہیں اور وہ تو بات ہی نہیں کرتے ٹھیک طرح سے تو آپ نے کام کیسے کر لیا تو میں نے ان کو بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے وہ بہت اچھے سے بات کرتے ہیں اور ان کے کام کا انداز بھی بہت اچھا ہے ہر کوئی کمفرٹبیل تھا ان کے ساتھ۔ایک سوال کے جواب میں نغمہ بیگم نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی وحید مراد کو مغرور کیوں کہتے تھے لوگ ؟وہ بالکل مغرور نہیں تھے بس کام میں مصروف رہتے تھے جس سے جتنی بات کرنی ہوتی تھی کر لیتے تھے ،اب اگر کام کی بات کرنا مغرور ہونا ہے تو میں تو اس تاثر کو بالکل غلط کہوں گی ،بھئی بات کرنے کے لئے وقت بھی تو ہونا چاہیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ شاید انہوں نے یہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا ایسی باتیں انہوں نے دل پہ لگائیں جو نہیں لگانی چاہیں تھی وہ شاید سوچتے تھے کہ مجھے لیکر فلمیں نہیں بن رہیں مجھے کوئی پوچھتا نہیں ،اب ہر کوئی مصروف ہونے کی وجہ سے اتنا وقت نہیں پاتا اپنے گھر والوں کو تو پھر کلیگز کو کیسے وقت دے سکتا ہے،بس وحید مراد نے یہ چیزیں بہت محسوس کیں اور باقاعدہ دل پہ لے لیں۔
نغمہ بیگم کہتی ہیں کہ ان کی فیملی کی لڑکیاں اور جاننے والی اکثر ان سے مختلف آرٹسٹوں کے حوالے سے پوچھا کرتی تھیں اور وحید مراد کے بارے میں تو بہت زیاد ہ پوچھا کرتی تھیں کہا کرتی تھیں کہ ہمیں کچھ ان کے بارے میں بتائیں جب میں نے کوئی بات بتانی تو وہ شرما جایا کرتی تھیں ،اْس دور میں تو لڑکیوں نے وحید مراد کی تصویریں کتابوں میں رکھی ہوتی تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میری ان کی پہلی فلم ’’مامتا‘‘ تھی اس کے بعد ہم نے ایک ساتھ ’’پیاری‘‘ میں بھی کام کیا اس میں ،میں وحید مراد کی ماں بنی ہوئی تھی۔آخر میں انہوں نے کہا کہ وحید مراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے انتقال کے بعد بھی لوگ انہیںیاد رکھے ہوئے ہیں ہر سال ان کی برسی مناتے ہیں تقریبات منعقد کرتے ہیں ہمیں بلاتے ہیں تو یہ بھی قسمت کی بات ہوتی ہے کہ کسی کو مرنے کے بعد بھی اتنا پیار ملے ،اور ان کے پرستاروں کو میں شاباش دینا چاہتی ہوں کہ جنہوں نے آج بھی وحید مراد کو یاد رکھا ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن