مہاتیر کا ستارہ ڈوب گیا 


ملائیشیا کے عام انتخابات میں سابق اور مصنوعی مرد آہن مہاتیر محمد کی سیاست کا مستقل خاتمہ ہو گیا۔ ان کی پارٹی بھی الیکشن ہار گئی اور وہ خود اپنی سیٹ سے بھی شکست کھا گئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دوسرے نمبر پر نہیں بلکہ چوتھے نمبر پر آئے۔ یعنی تین امیدواروں نے ان سے زیادہ ووٹ لئے۔ سرفہرست انور ابراہیم کی پیپلز جسٹس پارٹی رہی جس نے 83 سیٹیں حاصل کیں۔ انور ابراہیم مہاتیر کے غیض و غضب کا شکار رہے جس کی کہانی اپنی جگہ مزے دار ہے۔ دوسرے نمبر پر اسلام پسند جماعت ”یاس“ کا اتحاد رہا جس نے 3 7سیٹیں لیں۔ یاس اس وقت ملائیشیا کی چار یا پانچ ریاستوں (صوبوں پر حکمران ہے اور پہلی بار اس نے اتنی زیادہ سیٹیں لی ہیں کہ وہ وفاق میں کسی کے ساتھ کولیشن بنا کر حکومت میں آ سکتی ہے۔ 97 سالہ مہاتیر کا الائنس (امو¿ بارد اور دیگر) محض 30 سیٹیں لے سکا۔ 
پاکستان میں قائم تاثر کے برعکس مہاتیر محمد کبھی بھی مقبول عوامی قائد نہیں رہے۔ وہ ملائی قوم پرست جماعت امو¿ بارد میں شامل ہوئے اور پارٹی نے الیکشن جیتے تو وہ پہلی بار وزیر اعظم بنے۔ یہ 1981ءکی بات ہے۔ وزیر اعظم بن کر انہوں نے ”سول مارشل لائ“ کے طور طریقے اختیار کئے اور اپوزیشن کو کچل ڈالا۔ 2003ءتک ان کی حکومت رہی اور اس عرصے میں کوئی اخبار اپوزیشن کی خبریں نہیں چھاپ سکتا تھا۔ انہوں نے پارٹی سے اپنے مخالف نکال باہر کئے۔ پارٹی کے سب سے مقبول عوامی رہنما انور ابراہیم وزیر خزانہ تھے اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملائیشیا نے تیز رفتار ترقی کی۔ عوامی سطح پر مہاتیر کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی (دراصل ووٹ بنک ان کی جماعت امو¿ بارد کا تھا۔) انور ابراہیم کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر انہوں نے 1998ءمیں انہیں برطرف کر کے سراسر جھوٹے، غیر اخلاقی الزام میں گرفتار کر لیا۔ 2004 ءمیں عدالت نے اعتراف کیا کہ مقدمہ جھوٹا تھا۔ 
2018ءمیں الیکشن ہوئے تو ایک مخلوط حکومت بنی۔ الائنس میں مہاتیر کی جماعت چھوٹی تھی لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ مانگا اور یہ عہدہ حاصل کر لیا لیکن ان کے خلاف عوامی جذبات زیادہ بھڑک اٹھے تو الائنس نے انہیں نکال باہر کیا اور 2020ءمیں حکومت ختم ہو گئی۔ 
”یاس“ ملائیشیا میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کا ورشن سمجھ لیجئے۔ وہ عالمی اسلامی تحریکوں کے اس کلب کی رکن جماعت ہے جس میں جماعت اسلامی، اخوان المسلمون اور ترکی کی حکمران جماعت بھی شامل ہے۔ 
مہاتیر بیرونی دنیا میں اپنا تشخص ”اسلامی“ رہنما کے طور پر بنانے میں کامیاب رہے جبکہ ملک کے اندر وہ محض ملائی قوم پرست تھے جن کی جماعت میں غیر ملائی مسلمانوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں۔ ملائیشیا میں مسلمانوں کی آبادی 64.63 فیصد ہے جبکہ ملائی نسل کے مسلمان محض 50 فیصد ہیں۔ لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ آبادی کا یہ ملک اب نئی مخلوط حکومت میں عالم اسلام کے قریب آئے گا اور مہاتیر کی ”عرب دشمن“ خارجہ پالیسی کا باب ختم ہو گیا۔ امو¿ بارد والا اتحاد شاید پھر کبھی ابھر سکے لیکن مہاتیر کا ستارہ بلاشبہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ 
_________
پاکستان میں دھرنا سیاست کا تماشا جاری ہے اور دھرنوں کا عالمی چیمپئن عمران خان نے فرمایا ہے کہ حکومت عوام اور اداروں کو آمنے سامنے لانا چاہتی ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے موجودہ حکومت کو ایک بار پھر ”امپورٹڈ“ کا خطاب دیا۔ 
بیان دلچسپ لیکن اس کی سچائی تحقیق طلب ہے۔ یہ کال حکومت نہیں، خود عمران خان نے دی کہ عوام 26 تاریخ کو راولپنڈی پہنچیں۔ یعنی جسے ”اداروں“ کا شہر قرار دیا جاتا ہے اور راولپنڈی پنجاب میں ہے جس پر دھرنا پارٹی کی حکومت ہے۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ عوام کو اداروں کے ”روبرو“ پیش ہونے کی ہدایت کس نے کی؟۔ 
مزید وضاحت پی ٹی آئی کے اپنے روزنامے کے صفحہ اول پر چھپنے والی یہ خبر کر دیتی ہے جس میں لکھا ہے کہ: تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے 26 نومبر کو شمس آباد کے مقام پر احتجاجی دھرنے سے قبل ضلعی انتظامیہ کو حساس اداروں اور حساس مقامات کو جانے والے راستوں کو فوری بند کرنے اور متبادل روٹس بنانے کی تجویز دے دی۔ اس مقصد کے لیے تین رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے، بظاہر یہ لوگ اداروں کا رخ نہ کریں لیکن اصل مقصد وہ ہے جو مستور ہے لیکن پوری جھلک دے رہا ہے۔ 
ادھر کسی تجزیہ نگار کا یہ تجزیہ شائع ہوا ہے کہ خان صاحب کا یہ دھرنا کسی مقصد کے بغیر ہے۔ یہ بھی دلچسپ نکتہ ہے۔ دراصل مقصد بھی ہے اور ہدف بھی، بس کھلے لفظوں میں اقرار نہیں کیا جا رہا، جملہ اشارے البتہ البتہ د ئیے جا چکے ہیں۔ 
ایک ”خفیہ“ ہدایت جو پارٹی رہنماﺅں کی اپنے بااعتماد صحافی دوستوں سے بات چیت کے نتیجے میں برآمد ہوئی ہے، یہ ہے کہ 26 تاریخ کو 60 ہزار بندے پنڈی پہنچانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ 
یہ ہدف آف دی ریکارڈ ہے، آن دی ریکارڈ ہدف پارٹی رہنماﺅں کے مطابق دس یا پندرہ لاکھ افراد لانے کا ہے۔ دکھانے اور کھانے کے دانتوں کے درمیان کا فرق خاصا غیر متناسب نہیں لگتا؟۔ اب دیکھئے، ان 60 ہزار میں سے کتنے پہنچ پاتے ہیں۔ پارٹی وررز میں جوش و جذبہ البتہ ابھی سے مفقود نظر آتا ہے۔ 
_________
امپورٹڈ حکومت کا طعنہ دہرانے والی بات حیران کرنے والی نہیں، ہنسا دینے والی ہے۔ وہ خود بتا چکے ہیں کہ حکومت ختم کرنے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے نہ ریاستی اداروں کا۔ کل ہی ان کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے بیان دیا کہ عمران واضح کر چکے ہیں کہ حکومت گرانے میں ریاستی اداروں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ پھر یہ حکومت امپورٹڈ کیسے ہے؟۔ خواجہ آصف والی بات درست لگتی ہے کہ خان صاحب ذہنی طور پر اس مقام تک جا پہنچے ہیں جہاں انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ کس پر الزام لگانا ہے اور کون سا الزام لگانا ہے۔ 
_________
کھانے اور دکھانے کے دانتوں کا ایک اور فرق بھی سامنے آیا ہے جس کی طرف خواجہ سعد رفیق نے توجہ دلائی ہے۔ عمران خان نے جب سیلاب زدگان کے لیے دو پروگرام کئے تھے تو بتایا تھا کہ دونوں پروگراموں میں 13 ارب اکٹھے ہوئے ہیں۔ اب انہی کی پارٹی رہنما ثانیہ نشتر نے اطلاع دی ہے کہ محض ساڑھے چار ارب اکٹھے ہوئے۔ یہ دوتہائی سے زیادہ فرق کیوں ہے؟
ظاہر ہے، یہاں بھی وہی معاملہ ہے۔ خان صاحب نے دکھانے کے دانت دکھائے، ثانیہ صاحبہ نے کھانے والے دانتوں کی بات کی۔ شکر ہے خواجہ صاحب نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ رقم گئی کہاں؟۔ سیلاب زدگان کو تو ملی نہیں۔ 
_________

ای پیپر دی نیشن