سیلاب متاثرین سردیوں میں بھی خیموں میں رہ رہے ہیں، چندن مالہٰی 


میر پور خاص (نامہ نگار) نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) سندھ اور دی نالج فورم(ٹی کے ایف) نے میرپور خاص پریس کلب میں مشاورتی اجلاس منعقد کیاجس کی صدارت چندن مالہی، کوآرڈینیٹر این سی ایچ آر اور ذوالفقار شاہ، رکن سندھ ہیومن رائٹس کمیشن اور ٹی کے ایف سے نغمہ اقتدار نے کی۔اپنے ابتدائی کلمات میں این سی ایچ آر کے کوآرڈینیٹر چندن مالہی نے کہا کہ اس مشاورتی اجلاس کا مقصد میرپور خاص اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں مسائل سے مخدوش کمیونٹیز کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کرنا ہے۔ سفارشات ارسال کرنا اور انہیں سیلاب سے بچانے کی کوششوں میں ان مخدوش کمیونٹیز کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کرنا ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس کا مقصد سندھ اور وفاقی حکومتوں کواس اجلاس میں پیش کی گئی 
مشاورتی اجلاس کے شرکا میں میرپور خاص اور گردونواح کے اضلاع سے سول سوسائٹی، سرکاری افسران، این جی اوز اور مختلف کمیونٹیز کی نمایاں شخصیات بھی شامل تھیں۔سول سوسائٹی کے نمایاں شرکا میں شیر محمد سولنگی، رادھا بھیل، سرسو سے سید شہنشاہ، ایڈوکیٹ شوکت علی راہموں،صدر میرپور خاص بار ایسوسی ایشن اور صدر پریس کلب محمد بخش کپری شامل تھے۔اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے، کمیونٹی کے ایک فرد نے کہا کہ "سردیاں آچکی ہیں اور مون سون کے سیلاب سے متاثرہ لوگ اب بھی خیموں میں رہ رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں سیلاب کا پانی کم ہوگیا ہے لیکن اب بھی کئی نشیبی علاقے زیر آب ہیں۔ گھروں کو واپس جانا ممکن نہیں کیونکہ وہ رہنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ کیمپ ملیریا، ڈینگی، جلدی امراض اور گھریلو تشدد کی نرسری بن چکے ہیں۔اجلاس میں شرکت کرنے والے اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ایک اور شریک نے بتایا کہ سیلاب سے پہلے بھی ان کے پاس بہت کچھ تو نہیں تھا لیکن اس کے اور اس کے خاندان کے پاس رہنے کے لیے ایک کچا مکان ضرورتھا اور اسے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن سیلاب کے بعد اس کا خاندان نہ صرف چھت کے بغیر رہتے ہیں اور اب ان کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں مزید یہ کہ انہیں کیمپوں میں امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔مشاورتی اجلاس کے شرکا نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو ریلیف کے کاموں میں سستی پر تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ سردیاں آچکی ہیں بحالی کا کام کب شروع ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر کیمپوں میں بھیڑ ہے اور مناسب انتظام کا فقدان ہے۔ آٹھ سے دس افراد پر مشتمل خاندان کے لیے صرف ایک خیمہ ہے۔ زیادہ تر خیموں میں بیت الخلا اور واش رومز موجود نہیں ہیں اور ان میں نکاسی کا کوئی مناسب طریقہ کار نہیں ہے جس سے صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔رادھا بھیل جو کہ ایک سماجی کارکن ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ خیموں میں واش رومز اور بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور لڑکیاں پبلک واش رومز اور بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو کہ ان کے لیے کافی پریشانی کا باعث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور ان غیر معمولی حالات میں انہیں نظر انداز کیے جانے کا خطرہ ہے۔مزید یہ کہ شرکا نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جب بحالی کا عمل شروع ہو تو حکومت متاثرین کی خاص طور پر اس طرح بحالی کرے کہ وہ مستقبل میں آنے والے سیلاب کا شکار نہ ہوں۔مزید برآں، شرکا نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت امدادی سرگرمیوں میں قائدانہ صلاحیتوں سے عاری نظر آرہی ہے۔ متاثرین کی مدد کے لیے یہ صرف این جی اوز اور آئی این جی اوز پر منحصر ہے جو ان آزمائشی حالات میں اچھا شگون نہیں ہے۔اختتامی کلمات میں، چندن مالہی کوآرڈینیٹر ، این سی ایچ آر نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی قیمتی آرا اور سفارشات کو، سندھ بھر میں ہونے والی مشاورتی اجلاس کے سلسلے کے اختتام پر، اسٹیک ہولڈرز کے سامنے پیش کیا جائے گا جو سندھ میں ریلیف اور بحالی کی کوششوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن