بدھ،27  ربیع الثانی ھ، 1444، 23 نومبر 2022ء 

Nov 23, 2022


فرانسیسی صدر کو ایک بار پھر تھپڑ پڑ گیا  
’’کیا کہہ رہے ہو بھائی عجب کہہ رہے ہو۔‘‘ اگر اس وقت پی ٹی وی کا مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی چل رہا ہوتا تو یہ خبر اس روایتی ڈائیلاگ کے ساتھ اور بھی مزہ دیتی مگر کیا کریں۔ 90 ء کی دہائی والے اب رہ ہی کتنے گئے ہیں جنہوں نے پی ٹی وی کا عروج دیکھا ہو گا۔ فرانسیسی صدر میکرون کو لگتا ہے ان کو شامت اعمال نے گھیرا ہوا ہے جبھی تو 
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا 
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے 
کے مصداق وہ جہاں بھی جاتے ہیں کوئی نہ کوئی انہونا اچانک پیش آنے والا واقعہ دنیا کے سامنے آتا ہے۔ شاید یہ بھی ان کی سیاسی تشہیر کا انداز ہو گا۔ ورنہ وزیر اعظم کو تھپڑ مارنا خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔ اردگرد سکیورٹی والے ہمہ وقت چوکنا ہوتے ہیں۔ سکیورٹی والے بھی وہ جو چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں۔ انہیں بھلا اٹھنے والا ہاتھ یا مکا پہلے نظر کیوں نہیں آتا۔ اگر فرانسیسی صدر کی سکیورٹی اتنی ہی نکمی ہے تو پھر بہتر ہے کہ وہ پاکستان سے ہی سکیورٹی گارڈ مستعار لے کر اپنی حفاظت یقینی بنائیں۔ ورنہ کیا معلوم پھر کہیں سے کوئی تھپڑ ان کے گال چوم لے۔ ہمارے ہاں تو عوام میں اور وزیر اعظم میں اتنا فاصلہ ہوتا ہے کہ ان تک پہنچنا آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔  ویسے کہیں فرانسیسی صدر سے قدرت مسلمانوں کی دلآزاری کا انتقام تو نہیں لے رہی یہی میکرون ہے جو اسلام ، قرآن اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے سوئے ظن رکھنے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے میں لگا رہتا ہے اور اب قدرت اسے تھپڑوں کی سزا دے رہی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
پاکستان جیسے ملک دیوالیہ نہیں ہوتے: شوکت ترین 
حیرت ہے ایک ہی جماعت کے دو بڑے رہنمائوں کے بیانات میں اتنا شدید اختلاف کیسے ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد مسلسل پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا شور مچا رہے ہیں ان کی ہر تقریر دلپذیر میں خاص طور پر معیشت کی تباہی اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا نوحہ ضرور ہوتا ہے۔ جو اب میں ان کی پارٹی کے تمام عہدیدار بھی کورس کی شکل میں یہی بیانیہ دہراتے ہیں۔ کیا شیخ رشید اسد عمر یا فواد چودھری اور سب سے بڑھ کر خود شوکت ترین بھی ہر تقریر میں اس ڈیفالت ہونے کا تذکرہ کر کے ایک نہایت المناک بیانیہ ترتیب دیتے تھے جسے سُن کر ہر پاکستانی کے ہوش اُڑ جاتے تھے۔ اب اچانک 
یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا 
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا 
یہ کیسے ہو گیا کہ شوکت ترین جیسے جہاندیدہ مرد بزرگ کہہ رہے ہیں کہ ’’پاکستان جیسے ملک دیوالیہ نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی ملک یا دوست آ کر اسے بچا لیتا ہے ہاں البتہ اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔‘‘ ایسا تو ہر جگہ ہوتا ہے ہر جگہ مدد کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پاکستان خوش قسمت ملک ہے کہ اس کے دوستوں میں چین، سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، قطر جیسے ملک شامل ہیں جو کڑے وقت میں مدد کو پہنچتے ہیں۔ اور تو ۔اور ہمارا دشمن نہ سہی مخالف ملک امریکہ بھی اچھے برے وقت میں تھوڑی سی ہی سہی بہرحال مدد کو آتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خطہ میں اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے چین، روس اور بھارت پر نظر رکھنے کے لیے اسے پاکستان سے بہتر کوئی ملک نہیں مل سکتا۔ یوں دوستوں کے ساتھ ساتھ قدرت ہمارے دشمن کو بھی ہمیں مدد دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
سکھر تا حیدر آباد موٹروے کرپشن کیس، گاڑیوں میں بھر کر رقم گھر پہنچائی۔ ڈرائیور 
دل خوش کر دیا ڈرائیور نے یہ بتا کر کہ ڈپٹی کمشنر مٹیاری نے اس منصوبے میں کیسے اور کتنا کمایا ، جس ملک میں سو یا ہزار روپے رشوت لینے والا تو مستوجب سزا ٹھہرتا ہے، وہاں اربوں روپے کرپشن کرنے والے معزز اور فنکار قرار پاتے ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کوئی بڑی مچھلی احتساب کے جال میں پھنس جائے تو پھر ایسی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ علی بابا چالیس چور والی کہانیاں ان کے سامنے بے معنی دکھائی دیتی ہیں۔ بلوچستان میں ایک سیکرٹری صاحب کے گھر سے اربوں روپے قارون کا خزانہ بن کر برآمد ہوا۔ جسے گننے کے لیے بنک سے مشینیں منگوانا پڑیں۔ پھر اسی طرح کراچی میں ایک صوبائی محکمے کے ڈائریکٹر کا گھر دولت کدہ نکلا جہاں سے اربوں چھپائے ہوئے ملے کہ خود چھاپے مارنے والے چکرا کر رہ گئے۔ یہ تو نقد رقم کی بات ہے باقی زیورات ہیرے جواہرات ، سونا چاندی بانڈز ، جائیدادیں اس کے علاوہ ہوتی ہیں۔ اب سکھر، حیدر آباد موٹروے کے کرپشن کیس میں سوا دو ارب روپے کا معاملہ سامنے آیا تو پتہ چلا ہے کہ ڈپٹی کمشنر مٹیاری نے اس بہتی گنگا کو اپنے کوزے میں یوں بند کیا کہ سندھ پولیس کی حفاظت میں یہ رقم گاڑیوں میں کارٹن میں بند کر کے ساہیوال میں ان کے گائوں میرداد میں پہنچائی گئی۔ اب ڈرائیور کے بیان کے بعد مزید دو پولیس گارڈز بھی دھر لیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ بے چارے تو حکم کے غلام ہیں۔ انہیں جو ڈی سی صاحب نے کہنا تھا انہوں نے حکم بجا لانا تھا۔ اس کارخیر میں سندھ بنک کا ایک آفیسر اور ڈی سی کا اکائونٹ آفیسر بھی قابو میں آیا ہوا ہے۔ اب ان سب کا ایسا احتساب ہونا چاہیے کہ آئندہ قارون کا خزانہ جمع کرنے ، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے اور بڑی بڑی جائیدادیں بنانے والوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ قومی خزانے کو لوٹنے سے پہلے سو بار سوچیں کہ انجام کیا ہو گا۔ 
٭٭٭٭٭
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا 430 روپے فی مرلہ کوڑا ٹیکس لگانے کا فیصلہ 
صفائی کمپنی کے اس فیصلے سے لاہوریوں کو آٹھ ارب تیس کروڑ کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ ابھی یہ فیصلہ منظوری کے مرحلے میں دیکھتے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب اس کی منظوری دیتے ہیں یا نہیں مگر فی الحال تو خبر گرم ہے اور لاہوریوں کے موسم سرما میں اس گرم خبر کی وجہ سے پسینے چھوٹنے لگے ہیں کیونکہ آمدنی ٹکے کی نہیں اور اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہے تو اس میں غریب آبادیوں کو رعایت دینا ضروری ہے کیونکہ ان کے لیے تو یہ 430 روپے بھی پہاڑ کے برابر ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ لاہوریوں کو خود بھی اپنے علاقے کو گلی محلے کو صاف ستھرا رکھنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ یہ نہیں کہ گھر کا سارا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینک کر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔ اس وقت ویسے بھی لاہور کے پرانے علاقے قدیم محلے اور اندرون شہر میں صفائی کی صورتحال نہایت ابتر ہے۔ اس پر بھی حکومت پہلے صفائی کے محکمہ سے اس کی کارکردگی بھی پوچھے کہ میاں آپ لوگ کرتے کیا ہیں۔ آپ کا عملہ موبائل پہ تصویر بنا کر کچرہ وہیں چھوڑ کر غائب کہاں ہوتا ہے۔ گلیوں میں گٹر بند ہوتے ہیں گندا پانی پھیلا رہتا ہے۔ چوکوں پر کچرے کے پہاڑ جمع ہو کر بدبو پھیلاتے ہیں۔ پہلے ذرا ان کی کارکردگی چیک کی جائے پھر کوئی صفائی ٹیکس لگایا جائے۔ ورنہ اربوں روپے لے کر بھی اگر لاہور نے اسی طرح گندگی سے اٹا رہنا ہے تو پھر لاہوری پیسے کیوں دیں۔پیسے تب دیں جب لاہور گندگی سے پاک و صاف ہو۔ صرف فوٹو بنا کر عملہ صفائی غائب نہ ہوا کرے۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں