پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ پاکستان کے منصّۂ شہود پر آنے کے ایک سال کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات کا آغاز ہوا تو وقت گزرنے کے ساتھ فروغ پاتا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات میں گزشتہ پچھتر سال کے دوران بہت سے نشیب و فراز بھی آئے۔ امریکا نے متعدد مرتبہ پاکستان کو دھوکا دیا ۔ اہلِ پاکستان کی امیدوں پر پانی پھیرا اور انہیں مایوسی کا شکار کیا لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کی دوستی ختم نہیں ہوئی اور معاملات طوہاً و کرہاً چلتے رہے، البتہ عمران خان کی حکومت کو جب اس وقت کی متحدہ حزبِ اختلاف نے ایک حکمتِ عملی کے تحت تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکال باہر کیا تو وہ سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور حکومت سے نکلنے کا اس حد تک غم لیا کہ اسے براہِ راست امریکاکی سازش کا نام دے دیا۔ انہوں نے فرطِ جذبات میں آ کر امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کے معمول کے سفارتی خط (سائفر) کو بنیاد بنا کر ایک ایسا بیانیہ گھڑا جس کے ذریعے انہوں نے اپنی حکومت کو ختم کرنے کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ اپنے اس بیانیے کی انہوں نے اس زور و شور سے تشہیر کی کہ اس کے نتیجے میں امریکا پاکستان کے ساتھ سخت ناراض ہو گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان نے امریکاکے خلاف بھرپور ڈھنڈورہ پیٹنے کے بعد اب اپنے ہی بیانیے سے رجوع کر لیا ہے، جس سے ان کی سازشی تھیوری کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اور دوستی میں جو بال آ گیا تھا وہ آسانی سے صاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ گو کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب امریکی حکومت کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ پاکستان اب بھی خطے میں ہمارا ایک اہم اور قابلِ قدر اتحادی ہے‘‘ امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان نے کہا کہ نہ صرف خطے میں بلکہ امریکی پالیسیوں اور مشترکہ ترجیحات کے اعتبار سے انڈیا عالمی سطح پر امریکہ کا ایک انمول شراکت دار ہے جبکہ پاکستان کے دیرینہ تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس نے ہمیشہ ایک خوشحال اور جمہوری پاکستان کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھا ہے۔‘‘
امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جس قسم کی سوچ کا اظہار کیا گیاہے پاکستان اس کا خیرمقدم کرتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بحالی کے ضمن میں یہ پالیسی بیان خوش آئند ہے اور اچھی پیش رفت ہے اس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہو سکے گا اور تعلقات میں بہتری آسکے گی۔