مذہبی تضحیک ناقابلِ برداشت

1857 ء کی جنگ آزادی انگریزوں کی غلامی سے جان چھڑانے کی پہلی کوشش تھی نہ آخری لیکن یہ وہ کوشش تھی جس میں برٹش فوج اور عوام سب شامل تھے اور یہ بنگال سے لیکر پشاور تک پھیل گئی۔ کوئی بھی جنگ اور خصوفاً آزادی کی جنگ جیتنے کے لیے چار چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں جن کی بدولت یہ تحریکیں یا جنگیں کامیاب ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے ’’مقصد‘‘ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی قوم یا فوج کو لڑنے کے لیے مقصد کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے لوگ قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ ایک اعلیٰ مقصد قوم کو متحد کرتا ہے۔ دشمن کو نیست و نابود کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور بالآخر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ دوسری اہم چیز اعلیٰ قیادت کا ہونا ہے جو قوم کو متحد کر کے اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے مختلف ذرائع سے کوشش کرتی ہے۔ بکھری قوم کو راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ قوم میں قربانی اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور مشکل حالات میں اسے قائم رکھتی ہے۔ تیسری اہم چیز فوج ہے جو مقصد کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔ جس کو ماوزے تنگ نے کہا تھا ’’طاقت صرف بندوق کی نالی سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔ یہ وہ واحد زبان ہے جو دنیا کا ہر شخص سمجھتا ہے اور سب سے زیادہ دشمن سمجھتا ہے۔ ترقی یافتہ اور جذبہ قربانی سے معمور فوج کے بغیر کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا اور چوتھی چیز جو سب سے اہم ہے وہ عوام کا تعاون ہے جو مقصد کے حصول کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ان چار چیزوں میں سے ایک چیز غائب تھی اور وہ تھی اعلیٰ جرأت مند اور باصلاحیت قیادت۔ مقصد بھی تھا فوج بھی تھی اور متحد عوام بھی لیکن اہل قیادت جو راہنمائی کرتی اور قیادت کے بغیر کوئی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ 
انگریز 1608ء میں ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آئے  اور 1613ء میں مغل حکمرانوں  سے اجازت نامہ لے کر اپنا تجارتی کاروبار، اپنی کالونیاں اور کارخانے بنانے شروع کئے۔ جیسے جیسے کاروبار بڑھتا گیا حفاظت کے لئے چوکیداروں اور محافظوں کی ضرورت بھی بڑھتی گئی۔ شروع شروع میں انگریز یورپ سے بھگوڑے اور بدمعاش فوجی سپاہی لے آئے جو ان کی مقصد براری کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ پھر ان کی مدد کے لئے ہندوستانیوں کو بھرتی کرنا شروع کیا اور یوں برٹش انڈین آرمی کی ابتدا ہوئی۔ انگریزوں نے جنوبی ہند میں قدم جمانے کے بعد مختلف علاقوں میں لوٹ مار شروع کی۔ پھر آہستہ آہستہ چھوٹی جاگیروں اور گائوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور بالآخر مغل حکمرانوں، نوابوں، جاگیرداروں اور علاقائی تاجداروں کی نالائقیوں، بے وقوفیوں ، عاقبت نااندیشیوں ، باہمی رقابتوں اور عیش و عشرت پسندی سے فائدہ اٹھا کر 1856ء تک تمام ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ اس وقت تک فوج  میں45 ہزار یورپی اور 2,38,000 ہندوستانی تھے اور یہ ایک بہت بڑی فوج تھی۔ تمام افسران انگریز تھے۔ اعلیٰ ترین رینک کسی بھی ہندوستانی کے لئے رسالدار یا صوبیدار تھا لیکن اہم بات یہ تھی کہ قانونی طور پر انگریز مغل حکمران کے فرمان کے تابع کام کرتے تھے اور بدقسمتی سے مغل حکمران انگریزوں کے وظیفہ خوار اور تابعدار تھے۔انگریزوں کو ہندوستان کا مالک بنانے والی ہندوستانی فوج تھی جو اس دور کے حساب سے بہت تربیت یافتہ تجربہ کار اور ڈسپلن کی پابند تھی۔ کلکتہ سے کابل تک لڑ چکی تھی۔ سوائے افغانستان، قبائلی علاقہ جات اور سکھوں کی کچھ لڑائیوں میں بعض مقامات پر انگریز فوج نے مار کھائی ورنہ ہر جگہ فتح سے ہمکنار ہوئی لیکن حیران کن بات ہے کہ اتنی وفادار، ڈسپلن کی پابند فوج اچانک 1857ء میں بغاوت پر کیسے اتر آئی اور یہ بغاوت بھی کسی ایک چھائونی میں نہیں کی بلکہ ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ اس کے کئی ایک اسباب ہیں۔ اوّل تو یہ کہ انگریز فوج تاحال چور، ڈاکو، بدزبان اور بدکردار یورپی مع انگریز عوام الناس پر مشتمل تھی جو عزت و احترام کے خصائل سے عاری تھے جبکہ ہندوستانی سپاہی اور افسران (صوبیدار رسالدار) باعزت گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا یورپی سپاہیوں کی بداخلاقی، بدزبانی اور بدکردار و عادات ہندوستانی فوج کے لئے ناقابل برداشت تھی کیونکہ انگریز اب اپنے آپ کو پورے ہندوستان کا مالک سمجھتے تھے اور ہندوستانی فوج کو غلام۔ ایسا رویہ باعزت ہندوستانی فوجیوں کے لئے قابل قبول نہ تھا۔ دوسرا اسی دور میں انگریز برطانیہ سے کلرک بھرتی کر کے لائے جو بہت زیادہ بدزبان اور بداخلاق تھے جن کے ساتھ ہندوستانیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اکثر مقامات پر ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جس وجہ سے ان بداخلاق کلرکوں کو ہٹانا پڑا۔ تیسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریز اب طاقت کے نشے میں اپنے آپ کو ہندوستانیوں سے برتر سمجھتے تھے اور ہندوستانی انہیں قبائلی پٹھانوں اور سکھوں کی مار کا طعنہ دیتے جس سے بہت زیادہ حالات خراب ہونے لگے اور ہندوستانی فوج کے دل میں وفاداری سے زیادہ نفرت نے جنم لیا لیکن جو چیز فوری بغاوت کا باعث بنی وہ نئی قسم کی بندوق کا کارتوس تھا جسے استعمال کرنے کے لئے اُس پر سے چکناہٹ اتارنا ضروری تھی اور یہ چکناہٹ سوَر اور گائے کی چربی سے تیار کی گئی تھی جس کو چھونا ہندو مسلم دونوں کے لئے حرام تھا لہٰذا جب ہندوستانی سپاہیوں کو اس کا علم ہوا تو وہ بغاوت پر اُتر آئے۔ انگریز اب طاقت کے نشے میں اس حد تک مغرور ہو گئے تھے کہ انگریز جرنیلوں نے ہندوستانیوں کے اعتراضات سننے سے بھی انکار کر دیا اور اس چکنائی کا استعمال فوجی وفاداری کا پہلا اصول قرار دیا گیا۔ اس سے ہندوستانی سپاہیوں کو احساس ہوا کہ انہیں تو اپنے مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ ان کے مذہب کی توہین کی جا رہی ہے۔ جلتی پر تیل کا کام کچھ مزید انگریزی احکامات نے  کیامثلاً اس دور میں سرکاری سکولوں میں انجیل کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی اور ہندوستانی یونٹوں میں بھی اکثر کمانڈنگ آفیسرز نے انجیل کی تعلیم و ترویج باقاعدگی سے شروع کر دی۔ اس سے ہندوستانی سپاہیوں کے دلوں میں نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی مزید بدقسمتی یہ کہ بجائے صبر و تحمل اور دانشمندی سے اس نفرت پر قابو پانے کے انگریزوں نے طاقت، رعونت اور تحقیر آمیز رویہ سے اس ساری شورش کو دبانے کی کوشش کی جو بالآخر شعلہ بن کر بھڑک اُٹھی اور پوری فوج اپنے مذہب کے دفاع کے لیے باغی ہو گئی۔ 

ای پیپر دی نیشن