قارئین جب کسی ملک کے ہر کونے میں چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا ذکر ہو رہا ہو،ہر محکمہ کرپشن اور لاقانونیت کا شکار ہو چلا ہو، ہر گلی اور نکر پر کچرے کے ڈھیر ہمارا منہ چڑا رہے ہوں اور ہم لاپرواہ حسینہ کی طرح اس کوڑے کی بو سے قطعی بے نیازمنہ پھیر کر پاس سے گزر جانے کے عادی ہو جائیں ۔ ہر شہری اپنا کوڑا گلی یا سامنے کی گھر کے در وازے پر پھینکنے کا عادی ہو چلے، تو صرف حکومت ہی نہیں ہم میں سے ہر فرد اس قوم کی تباہی میں نہ صرف برابر کا شریک ہے بلکہ اس سوچ غلط کا شکار ہے کہ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا نقصان ہماری ذات کو نہیں بلکہ ہمارے پڑوس میں سے کسی کو ہو جائے ہمیں کیا۔ اس میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر انفرادی فعل جب مجموعی شکل اختیار کرتا ہے تو قوم کا ایک عکس بنتا ہے ، اس کے نقصانات سے قومی یا بین الاقوامی طور پرہر کس و ناکس کا واسطہ پڑتا ہے اور قوم کی اخلاقی گراوٹ کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات اس قوم کے ہر شعبہ زندگی پر ناقص کارکردگی کی شکل میں نمودار ہونے سے اس قوم کی ترقی کے راستے مسدود ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس قوم میں کوئی پلاننگ بر وقت عمل کرنے کی طاقت برقرار رہتی ہے۔وہ ایک ہجوم جو کہ سرا سر اپنے ذاتی مفادات کو مد نظررکھتا ہے اور اس کو کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔اس نفسا نفسی کی کفیت سے ملتی جلتی حالت انیس بیس کے فرق سے ستر سالوں سے اس قوم کو جکڑے ہوئے ہے۔پچاس سال سے سیاسی اختلافات کی وجہ سے ہم ایک بڑا ڈیم نہ بنا سکے جس سے ہمیں سستی بجلی مل سکتی جبکہ دوسرقی قوموں نے ان ستر سالوں میں نہ صرف کروڑوں افراد کو غربت سے نکالا اوربلکہ کئی ڈیم بنا کر اپنی قوم کو دیئے۔ انہوں نے رینیوبل انرجی کے طریقے سے بچتیں کیں، بہت پہلے سولر انرجی کو اپنانا شروع کیا،ہم نے بڑی سے بڑی گاڑی تو خریدی لیکن ان کے لئے پٹرول کی بچت کو اپنے اوپر لاگو نہ کیا ، اگر ہم ہفتہ میں صرف ایک دن کے لئے ہی بڑی گاڑی کو سڑکوں پر نہ لانے کا قانون یا عہد کر لیتے تو کئی اربوں روپوں کی پٹرول کی بچت ہوجاتی۔ صرف رات کو سات بجے دکانیں بند کرکے ہم بہت بجلی کی بچت کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مگر ہم کسی ادارے کو اپنے بجلی کے بل کو کم کرنے کاحکم کر کے پابند نہ کرسکے۔ ایسے ہی گیس کا استعمال بھی ایک خاص وقت تک عمل پیرا ہو کر ہم کروڑوں روپے کی بچت کر لیتے۔ پنشن اور بھرتی میں پرسنٹ کے قانون کو اگر ختم نہیں تو ان میں کمی ضرور کرتے اور ایک خاص مدت تک نئی بھرتی پر پابندی ضرور لگاتے۔اپنی درآمدات جن میں لگژری آئٹم شامل ہوں ، ان کو مکمل نہیں تو ایک خاص مقدار اور مدت تک محدود کر دیتے ۔ابھی تک آئی ٹی کے شعبہ میں ضروری پیش قدمی اس لئے نہ کر پائے کہ ہماری قومی سیاسی انارکی افراتفری ستر سالوں سے جاری ہے ۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جہاں تیز ترین مواصلاتی ذرائع، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیںخلا میں نت نئی کہکشاوں کا ظہور، خلائی دنیا میں انسان کاجلد رہن سہن، روباٹکس، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ،کمپیوٹر اور مستقبل میں سانسی ذہنیت پرمشتمل معاشرے گلوبل ویلج کا قیام شامل ہے، اس کاہم اپنی نااہل حکومتوں کی وجہ سے اجرا نہ کر سکے ۔نہ صرف ہارویسڑز ،بیج کی ورائٹی ، کوالٹی سے گندم اور ٹیکنالوجی سے بیرون ملک دوسری اقوام ہم سے کئی گنا زیادہ کوالٹی ،مقدار میں زرعی اشیا، ڈیری کی پیداوار کر رہے ہیں او ر ہم زرعی ملک ہنے کے باوجود ان سے زرعی اجناس ان کے بیجوں ، ڈیری پراڈکٹس منگوانے پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں ہمارے چاغی میں قیمتی ریکوڈیک کے اندازاپانچ سو ارب ڈالرز کے ذخائر کو اپنی جدید مشینری سے ہماری بلوچستان کی زمین کا سینہ پھاڑ کر نایاب دھاتیں جن میں بارہ ملین ٹن سے بھی زیادہ کاپر اور بیس ملین اونس سے زیادہ سونے کے ذخائر موجود ہیں ان کی ٹوٹل مالیت مغربی ذرائع کے مطابق ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ کی ہے آسٹریلین کمپنی اپنی ٹیکنالوجی کے بل پر اپنے ملکوں کو زر مبادلہ کمانے جا رہے ہیں اور ہم ان کا منہ دیکھ رہے ہیں خاران وزیرستان کرومائٹ کے ذخائر سے مالامال ہے،جم سٹون کے ذخائر بھی وہاں موجود ہیںادھر ہم ہیں کہ ہمارے سیاسی زعما اپنی جھوٹی اناﺅں سے نکل نہیں پا رہے او ر تمام میڈیا اور قوم معذرت کے ساتھ سیاست سیاست کھیل رہی ہے زمانہ چال قیامت کی چل رہا ہے۔پچھلے دس سے بیس سالوں میں کسی ایک حکومت نے بھی بشمول ایف بی آر، آی پی پی ز میں اصلاحات سمیت بچت کے لئے یا قرض میں کمی کا عملی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ کب تک قرض میں ہچکولے کھاتی ہوئی ہماری معیشت ڈگمگاتی رہے گی ۔کب تک جنگل کا قانون نافذ رہے گاغور کیجئے مبادا کہیں دیر نہ ہو جائے۔