تفکرات کی بجائے مثبت رویہ اپنائیں


مکرمی! آپ نے دیکھا ہو گا کہ شکار، شکاری کی سحر انگیز نگاہوں سے متاثر ہونے کے بعد خوف سے اپنی جگہ سمٹ جاتا ہے اور ایک قدم ادھر ادھر ہونے کے قابل نہیں رہتا،خوف اس کے قدموں کو جکڑ لیتا ہے اور شکاری اپنا کام کر لیتا ہے۔انسان کے ساتھ بھی بعینہ یہی معاملہ ہے۔جب تک آپ خوف کے زیر اثر رہتے ہیں آگے بڑھنے کے عمل کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔خوف غیر مرئی مخلوق کا ہو یا انسانوں کا،حقیقی ہو یا غیر حقیقی،صحت کے لئے زہر قاتل ہے،ذہنی بیمار کبھی جسمانی طور پر صحت مند نہیں رہ سکتے اور فی زمانہ آلودہ ذہن (دباو¿، تفکرات، اندیشے، وہم، خوف) جسمانی صلاحیتوں کو زنگ لگائے ہوئے ہے،ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور مغلوب رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔در حقیقت،اس خوف اور دباو¿ کی کیفیت سے ہمیں نکلنا ہو گا اور اپنے بچوں کو نکالنا ہو گا۔ہمیں اس دباو¿ کی کیفیت سے بچوں کو نکالنا ہو گا جو کم نمبروں کے خوف کے باعث ان پر طاری رہتا ہے اور استہزاءکا نشانہ بننے کا خوف ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی ابھرنے نہیں دیتا۔ بحثیت والدین،ہمیں باو¿نڈریز اپنے شعور سے بنانی ہوں گی اور معیار بھی ہمارے اپنے طے کردہ ہوں گے،بچوں کو بھیڑچال کی اس فضاءسے متاثر ہونے سے بچانا ہو گا جو بلند پروازی اور غلبے کی سوچ کو ان میں پروان دینے کی بجائے طاقت پرواز سلب کر لیتی ہے اور نوکر شاہی کے لئے تیار کرتی ہے۔ہمیں آگے بڑھنا ہے،زندہ رہنا ہے تو مصنوعی خوف کی فضاءکو چیرتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرنا ہو گا۔اللہ کا خوف جب ہم پر طاری ہو گا تو کسی اور شے کا خوف ہمیں قبر تک نہیں پہنچائے گا۔ہمیں میمنے کی موت سے سبق لینا ہو گا۔ہمیں یقین پیدا کرنا ہو گااورخوف سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ہمیںاپنے آپ کو یہ باور کروانا ہو گا کہ اللہ کی حدود میں ہم محفوظ ہیں،کوئی بھیڑیا ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔اس لئے ہمیں بظاہر دکھائی دینے والے بھیڑیوں،خوف،تفکرات میں گھلنے کی بجائے مثبت زاویہ نگاہ اور طرز زندگی اپنانا ہو گا۔یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم تفکرات میں گھرے رہنے کی بجائے زندگی کی خوبصورتیوں پر نگاہ رکھ کر آگے بڑھیں گے کیونکہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
 (ندااسلام شاہدرہ لاہور)

ای پیپر دی نیشن