والدین کی ذرا سی لاپرواہی بچوں کو بڑے نقصان سے دوچار کر دیتی ہے
تین دن قبل سابق فاسٹ بولرشعیب اختر سے ملاقات ہوئی تھی، حادثے کا سن کر شعیب اختر بھی صدمے سے دوچار
خوبصورت بچے کے انتقال کا سن کر بہت دکھ ہوا،ملاقات کی ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی
میرے پاس دوڑ کر آیا، گھر والوں نے اگلے دن شکریہ کی ویڈیو بھی بھیجی تھی،شعیب اختر
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
بچے پھولوں کی طرح نازک ہونے کیساتھ ساتھ ناسمجھ بھی ہوتے ہیں۔ خصوصا پانچ سال تک کے بچے کو والدین کی خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے۔ یہ کب کیا شرارت کر بیٹھیں‘ نہیں معلوم ہوتا۔ذرا سی لاپرواہی بچے کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کر سکتی ہے۔آئے روز اخبار اور نیوز چینل ایسے حادثات کی روداد سناتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بچے کی خبر وائرل رہی کچھ ا س طرح کہ دبئی میں تین روز قبل شعیب اختر سے ملنے والا بچہ عمارت کی 14 ویں منزل سے گر کر جاں بحق، یہ خبر پڑھ کر یک دم وہ بچہ یاد آگیا جس کی تین روز قبل شعیب اختر سے ملاقات کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔دبئی میںایک بک فیئر کے دوران شعیب اختر جب سٹیج پر تھے تو بلیک پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ماتھے پر بال بکھیرے ایک تین سالہ بچہ سٹیج پر شعیب اختر سے ملنے کے لیے گیا۔ واپسی پر سٹیج سے اترتے ہوئے وہ بچہ سیڑھیوں سے گرا توشعیب اختر فوراََ اسے اٹھانے کے لیے لپکے ا ور بچے کو گود میں اٹھا لیا، جس پر ہال میں موجود تمام شرکاء تالیاں بجانے اور ویڈیو بنانے لگے ۔
بچے کے ساتھ شعیب اختر کی یہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی۔لیکن اسی بچے کی جب تین دن بعد عمارت سے گرنے کی خبر آئی تو لوگوں کے ساتھ ساتھ یہ خبر شعیب اخترکے لیے بھی صدمے کا باعث تھی۔شعیب اختر نے بچے کی حادثاتی موت کی خبر ٹوئٹر پر شیئر کی۔
شعیب اختر نے اپنے اکائونٹ پر بتایا کہ شارجہ میں بک فیئر کے دوران یہ بچہ شارجہ میں گزشتہ اتوار کو ہی میرے پاس دوڑ کر آیا تھا،اس کے گھر والوں نے اگلے دن شکریہ کی ویڈیو بھی بھیجی تھی۔
سابق فاسٹ بولر نے بچے سے ملاقات اور پیار کے اظہارکی ویڈیو بھی اپنے اکائونٹ پر شیئر کی اور لکھاکہ اس خوبصورت بچے کے انتقال کا سن کر بہت دکھ ہوا۔دوسری جانب دبئی کے خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق شارجہ میں عمارت کی 14 ویں منزل سے گرنے والے پاکستانی بچے کے والدین سے پولیس غفلت کے شبہ میں پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق بچہ کھڑکی کے نیچے لگے بستر پر چڑھا اور کھڑکی سے نیچے گرا۔
بلند و بالا عمارت میں مقیم رہائشیوں کو خاص طور پر چھوٹے بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ چھٹی حس بیدار ہو تو بچہ حادثات سے محفوظ رہتا ہے۔ حادثے کے شکار بچے کے والدین کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ ہے لیکن یہ واقعہ بہت سارے والدین کے لیے سبق بھی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کس طرح حفاظت ممکن بنا سکتے ہیں۔
بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں ، ان میں تسخیر کرنے کی جدوجہد بڑھتی چلی جاتی ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے روز کسی نئی چیز کی تلاش میں ہوں۔ اکثر بچوں کو بالکونی کے جنگلے پر چڑھ کر نیچے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھنا پسند ہے ۔ اسی لیے اکثر حادثات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ واش روم میں بالٹی کے اندرموجود پانی سے کھیلنا ، الماری سے کوئی چیز نکالنے کے لیے اس کے آگے کرسی یا ٹیبل رکھ کر اس پر چڑھ کر الماری تک رسائی حاصل کرنا۔ بھوک لگ رہی ہو اور گھر والے سو رہے ہوں تو اکیلے چولھا جلانا، اکیلے سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا، سوئچ کے بٹن آن آف کرنا، گرم استری پکڑنا وغیرہ جیسے افعال سر انجام دینا تقریبا ہر بچے کی عادات وا طوار میں شامل ہیں۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ گھر میں اگر والدین کے علاوہ کوئی تیسرا بڑا فرد جیسا کہ دادا، دادی موجود نہ ہوں تو والدین میں سے کوئی نہ کوئی ہر وقت بچے کے سامنے رہے۔ خصوصا پہلی یا دوسری تیسری منزلوں کے رہائشی کوشش کریں کہ گھر میں موجود کھڑکی یا تو بند رکھیں یا کھلا ہونے کی صورت میں گرِل آگے ضرور ہو۔