یہاں نالج کو چیلنج کرنے کا رواج نہیں


عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
پنجاب یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف بزنس ایجوکیشن سے کیریئر کاآغازہوا، بعد ازاں اسی ڈیپارٹمنٹ میں بطور ہیڈ آف دا ڈیپارٹمنٹ فرائض سر انجام دیئے۔اس کے بعد آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر کے گزشتہ  بیس سالوں تک سعودی عرب اور کینیڈا میں  تعلیم وتدریس اور ایڈوائزری کا سلسلہ جاری رکھا۔سعودی عرب میں پروفیسر ڈاکٹر ندیم بھٹی نے نو سال بطور ایڈوائزر آف سعودی گورنمنٹ ، منسٹری آف کامرس، منسٹری آف  فائننس،منسٹری آف انڈسٹریز کیساتھ خدمات سرانجام دیں۔جبکہ کینیڈا میںایجوکیشن انسٹیٹیوشن ٹریننگ کالجز کے ہیڈ رہے۔چھ مہینے قبل آپ پاکستان واپس آئے ہیں اور اب بطور  وائس چانسلر لاہور Leads یونیورسٹی میں اپنے تجربات اور خدمات سے  یونیورسٹی کو بہرہ مند کر رہے ہیں۔
نوائے وقت :آسٹریلیا اور کینیڈا کے نظام تعلیم  کا حصہ رہنے کے بعد آپ پاکستان میں رائج نظام تعلیم میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ندیم بھٹی :ہم کافی پیچھے ہیں اور بہت حد تک مختلف بھی ہیں۔ہم نے ارتقاء پر روڈ میمری پر بہت زور ڈالا۔مثلاامتحان میں ’’کوئی سے پانچ سوال حل کریں‘‘ بہت عام پیٹرن ہے۔یہاں سب سے بڑا خلا ء یہ ہے کہ کلاس روم میں ٹیچر جب طالب علموں کو لیکچر دیتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ کہاں کہاں ہوگا ،نہیں بتایا جاتا۔مثال کے طور پر اگر ریاضی کے سٹوڈنٹ کو ایک سوال حل کرنے کے لیے دیں تو وہ دو منٹ میں حل کر دے گا لیکن اگر اس سے پوچھا جائے کہ یہی سوال پریکٹکل لائف میں کہاں لاگو ہوگا تو اس کا اسے علم نہیں  ہوتا۔مجھے یاد ہے کہ B.COM میں جب ہم نے Statistic  
 پڑھی تو ہمیں یہی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس مضمون کا سکوپ کیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ریسرچ میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ کلاس روم میں طالب علموں سے میں نے سوال کیا کہ اس کمرے میں کہاں کہاں فزکس استعمال ہو رہی ہے تو سٹوڈنٹس اس بارے نہیں جانتے تھے۔دوسرا ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں نالج کو چیلنج کرنے کا رواج نہیں ہے۔یعنی ہمارا استاد یہ سمجھتا ہے کہ جو میں نے کہا ہے، پڑھایا ہے، وہی حرف آخر ہے۔ مغرب میں طالب علموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نالج کو چیلنج کر سکتے ہیں، اپنی رائے بنا سکتے ہیں،اساتذہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں سٹوڈنٹس کی کہ ٹیکسٹ بک میں جو لکھا ہے اس پر سوچ و بچار کر کے آپ اپنی رائے بھی بنا سکتے ہیں۔ریسرچ کی کمی ہے۔ ایم فل ،پی ایچ ڈی میں ریسرچز ہیں لیکن ان کا معیار وہ نہیں جو پاکستان سے باہر ہے۔مغرب میں سکول لیول پر بچے انگلیوں کی ٹپس پر پاور پوائنٹ کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں،جسے ہربچہ ابتدائی سٹیج پر سیکھ چکا ہوتا ہے۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم پاور پوائنٹ کا استعمال ماسٹر لیول پر سیکھاتے ہیں۔
نوائے وقت:کالجز سے فارغ التحصیل طلباء جب یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہیں تو ان میں کیا کمیاں محسوس کرتے ہیں؟ 
ڈاکٹر ندیم بھٹی :ہمیں لگتا ہے کہ بہت فرق آگیا ہے سٹوڈنٹ کے لرننگ سٹائل میں۔بہت سارے طالب علموں کو اس لائف سٹائل میں ڈھلنے میں مشکل پیش آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کالجز میں سالانہ امتحانی نظام رائج ہے ۔ اس مرحلے سے گزر کر جب طالب علم یہاں پہنچتا ہے تو یہاں اسے مختلف نظام ملتا ہے۔ یہاں،  انٹرنل سسٹم ہے ،سمسٹرزسسٹم ہے،پریزنٹیشنز ، کیس سٹدی ہے، ان سب کو ملا کر مارکس ملتے ہیں یعنی مکمل طور پر ایک مختلف سسٹم ہے۔مغرب میں بچپن سے بچے کو ریسرچ کرنا، کیس سٹدی سکھایا جاتا ہے۔سکول لیول پر‘ پریزنٹیشن کیسے دی جاتی ہے‘ سکھایا جاتاہے۔ لہذا یونیورسٹی آکر انہیں دھچکا نہیں لگتا۔ہماری خواہش ہے کہ کسی طرح سے سکول کا کالجز سے اور کالجز کا یونیورسٹیز کے ساتھ لنک پیدا ہو جائے۔
لیڈز یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر تعینات ہونے کے بعد ادارے اور طالب علموں کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے کون کون سے انیشیٹوز پائپ لائن  میںہیں؟
تحقیق بتاتی ہے کہ جتنے نئے سٹارٹ اپس بنتے ہیں اتنا ہی ملک ترقی کرتا ہے۔ دنیا بھر میں  ایک سال کے دوران جتنے نئے بزنس شروع ہوتے ہیں ان میں سے 61 فیصد یو ایس اے میں تخلیق ہو رہے ہیں۔اس کی و جہ سے پوری  دنیا میں نمبرون اکانومی یوایس اے کی ہے۔آپ حیران ہوں گے کہ نمبر 2 پرانڈیا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سٹارٹ اپس ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے انڈیا کی اکانومی دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی ہے۔ہمارے ہاں تو سٹارٹ اپس کا رواج ہی نہیں ہے۔اسی وجہ سے ہم دنیا کی اڑتالیسویں معیشت ہیں۔لہذا ملک میں اسٹارٹ اپس کا کلچر پروموٹ کیا جائے،لوگوں کو نوکریوں کی بجائے بزنس کی طرف لایا جائے۔ لہذاس مقصد کے حصول کے لیے ہم نے اپنی یونیورسٹی میں ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کیا ہے جس کے ذریعے انٹرپرینیور شپ پروموٹ ہو گی۔ اس کے لیے ہم اپنے اساتذہ کو ٹرینڈ کر رہے ہیں ، وہ اس طرح کہ ہفتے کے سات دن یونیورسٹی بلانے کی بجائے انھیں چھ دن یونیورسٹی بلاتے ہیں اور بقیہ ایک دن انھیں کہتے ہیں کہ وہ ایک دن آپ کسی بزنس  انسٹییوشن میں گزاریں، وہاں دیکھیں کہ کام کیسے ہوتا ہے، ایجوکیشن کا ٹیچرپرائمری ، یا سیکنڈری سکول کے دفتر میں بیٹھے گا اور دیکھے گا کہ سکول کا انتظام کیسے چلایا جاتا ہے۔ماس کمیونیکیشن کے لوگ میڈیا ہائوس جا کر دیکھیں گے کہ اسے کیسے چلایا جاتا ہے، وہاں کے معاملات کیا ہوتے ہیں۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارا ہر سٹوڈنٹ انٹر پرینیور شپ کا سبجیکٹ پڑھے گا، اور اپنے سبجیکٹ میں رہتے ہوئے سوچے گا کہ میں اس میں رہ کر بزنس کیسے کرنا ہے۔اس کے علاوہ ہم پی ایچ ڈی پروگرام بھی شروع کر رہے ہیں۔پاکستان میں میڈیکل انفارمیشن ہسٹری سسٹم بہت کمزور ہے۔ یعنی آپ جس کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جائیں، ہر بارنئے سرے سے  بیماری کا بتانا پڑتا ہے۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایسی کمپنیز کے ساتھ کام شروع کریں جو اس کی ماہر ہیں،اور ایسے ایکسپرٹس بنائیں جو میڈیکل انفارمیشن سسٹم کے ماہر ہوں۔یعنی ایسے ماہرین جو فیلڈ میں جاکر ایسا سسٹم بنائیں جس کے تحت مریض کا صرف شناختی کارڈ نمبر درج کریں اور اس کی میڈیکل ہسٹری سامنے آجائے۔اسے دی جانے والی ادویات اور ٹریٹمنٹ کی تفصیل ملے۔
اس کے علاوہ ایسی پاکستانی فیملیز جو بیرون ملک رہائش پذیر ہیں خصوصا مڈل ایسٹ وغیرہ اور مہنگی تعلیمی اخراجات کے باعث اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹیز نہیں بھیج پاتیں اور چاہتی ہیں کہ ان کی بچیاں پاکستان آکر تعلیم حاصل کریں ان کے لیے جدید سہولتوں سے مزین ہاسٹل تعمیر کر رہے ہیں۔ صرف  فارن گرلز کے لیے  یہ ہاسٹل بنانے کا مقصد اس لیے ہے تاکہ انھیں رہائش کے لیے یونیورسٹی سے باہر نہ جانا پڑے اور وہ یونیورسٹی کے اندر رہ کر تعلیم حاصل کر پائیں۔ یوں ان کے والدین بھی پر سکون رہ پائیں گے کی ان کی بیٹیاں اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
نوائے وقت:نوجوانوں کے ہاتھ میں پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
 ڈاکٹر ندیم بھٹی :پاکستان کے جوان بہت باصلاحیت اورمتحرک ہیں۔ لیکن ان میں مایوسی کا عنصر غالب آچکا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا برائٹ فیوچر بیرون ملک ہے۔کنفیوژن بہت زیادہ ہے ان میں، ان کے لیے ایسے پلیٹ فارم کی کمی ہے جہاں پر اپنی صلاحیتیں منوا سکیں۔اسی وجہ سے ملک کا ٹیلنٹ باہر جارہا ہے۔ 
نوائے وقت :یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء کو اکثر یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ عملی زندگی میں یہ کس حد تک کامیاب ہو پائیں گے؟ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر ندیم بھٹی:اس کا حل یہ ہے کہ یونیورسٹی  سال  کے آخری دو مہینوں میں طالب علموں کو اچھی سی وی پریزنٹیشن، انٹرویو، اور مضمون سے متعلق شعبوں میں جاب سرچ کرنا سیکھائے ۔ اہم مسئلہ ہی یہی ہے کہ سٹوڈنٹ کو جاب سرچ کرنا نہیں آتی۔ اسی وجہ سے انڈسٹری اور سٹوڈنٹ میںخلاء قائم رہتا ہے۔
اس کے بعد ایسی سی وی بنانے کی اور اچھے انٹرویو کی ٹپس سیکھائی جائیں جن کے تحت سٹوڈنٹ جب ادارے میں جائے تو پہلا تاثر اچھا پیدا کر پائے۔اسی مقصد کے لیے ہماری یونیورسٹی کام کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ سیکھانا اور بتانا بہت ضروری ہے کہ جاب سرچ کیسے کی جائے، بہت ساری CVs میں آپ کی سی وی کیسے متاثر کر سکتی ہے کسی کو۔اس کے علاوہ ڈریس اپ کیسا ہونا چاہیے، باڈی لینگوئج کیا ہو؟ شخصیت پر اعتماد کیسے نظر آئے، یہ سب بتایا جانابہت ضروری ہے۔
نوائے وقت: وہ کیا ہے جو پرائیوٹ سیکٹر کر رہا ہے اور گورنمنٹ سیکٹر نہیں کر رہا؟
ڈاکٹر ندیم بھٹی:پرائیوٹ سیکٹر میں جلد فیصلہ  کرنے کی صلاحیت ہے۔ گورنمنٹ سیکٹر میں میں کوئی فیصلہ کرنا ہو تو کئی لوگوں کی مشاورت اور اجازت سے وہ کام ممکن ہو پاتا ہے، جس کی وجہ سے کام متعین وقت کی بجائے تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔ جبکہ پرائیوٹ سیکٹر میں ایسا نہیں ہے۔ اگر وہ کام کسی بہتری کے لیے ہے تو فیصلہ متعلقہ فرد واحد کی اجازت سے بھی  ہوجاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن