مجھے فخر ہے کہ میری پہلی قلمی کاوش اُس عظیم اور باکردار انسان کے لیے ہے جنھوں نے ساری زندگی پاکستان سے محبت اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لیے صرف کر دی۔ اس محب وطن کا نام سید کبیر علی عتیق ریاض واسطی ہے۔ ان کا تعلق سادات امروہہ( امروہی سید) کہتے ہیںاور مشہور صوفی سید شرف الدین شاہ ولایت المعروف دادا ولایت جن کا تعلق حضرت امام علی نقوی کے نویں سلسلے سے ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد آپ کا خاندان پاکستان میں آ کر رہنے لگا۔ سادات امروہہ کا پورا شجرہ نصب اب بھی موجود ہے اور مجھے فخر ہے کہ میرا نام بحثیت داما د سید کبیر علی واسطی موجود ہے۔ واسطی صاحب نہایت پُر خلوص اور نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے اپنے گھر کو ’’اوپن ہائوس "میں بدل دیا تھااور یہی وجہ ہے کہ تمام اقابرین صحافی، غیر ملکی سفراء ، اہم ترین سرکاری افسروں اور قد آور رہنماوں کو اکثر اپنے گھرمیںمدعوکیا کرتے تھے اور یہ تمام ـگفتگو "آف دی ریکارڈ" ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا گھرانہ مرادآباد سے راولپنڈی منتقل ہوا ۔ ان کے دادا سید عاشق حسین واسطی بھوپال سٹیٹ کے چیف انجینئر تھے اور آپ کے والد سید عتیق حسین واسطی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے بعد انہوں نے ایک پرنٹنگ پریس چلا یااور اس وقت ان کا ساتھ نہایت پر خلوص اورانتہائی نفیس زوجہ محترمہ بلقیس اختر واسطی نے دیا جو کہ تدریس کے شعبہ سے وابسطہ تھیںاور گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل تھیں۔ واسطی صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈینیز ہائی سکو ل سے حاصل کی۔ واسطی صاحب نے ایوب خان کے پی آراو کے طور پر اپنی سیاسی زندگی کا آغازکیا اور یہیں سے ان کا تعارف بہت سے سیاسی کارکن اور اقابرین سے ہوا۔ ایک دن صدر ایوب خان کو بات کرنے کے لیے ایم این اے اور ایم پی اے کے نمبر درکار تھے۔ جس پر موجود واسطی صاحب نے فر فر ان کا نام اور نمبر بتائے۔یہ سن کر صدر صاحب بہت حیران ہوئے، جس کی وجہ سے وہ صدر ایوب خان کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک سیاسی کارکن کہتے تھے۔ انہوں نے کبھی شہرت اور اقتدار کی سیاست نہیں کی اور ہمیشہ جمہوریت کیلیے کوشاں رہے۔صدر ایوب کے دور کو آپ سنہری دور تصور کرتے تھے۔ وہ خود صد ر ایوب کے ساتھ بہت سی میٹنگ میں موجود رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان میں اصل ترقی کا دور ایوب خان کا تھا یہاں تک کہ جنوبی کوریا نے ایک وفد بھیجا کہ پاکستان کی ترقی کا راز معلوم کریں۔وہ اُس وقت بھی وہاں موجو د تھے جب صد رایوب خان سے استعفیٰ لیا گیا اور انہوں نے یحییٰ خان کو اس کا ذمہ دار قررار دیا۔وہ بھٹو سے یحییٰ کے مذاکرات کے مخالف تھے اور انہوں کے مطابق بھٹو نے یحییٰ خان کو صدر تسلیم کر لیا تھا۔لیکن مجیب الرحمن ایسا کرنے سے قاصر تھا۔ ان کے مطابق مشرقی پاکستان کی جماعتوں نے مغربی پاکستان میں صحیح طریقے سے الیکشن لڑا ہی نہیں بلکہ مجیب الرحمن نے مغربی پاکستان میںخوب الیکشن لڑا۔
ملک قاسم مرحوم سے وہ بہت متاثر تھے اور ان کے ساتھ ہی انہوں نے سیاست کا آغاز کیااو رکنونشن مسلم لیگ سے اپنا تعلق جوڑا۔بھٹو کے خلاف پی این اے تحریک کا حصہ بنے لیکن بعدمیں جنرل ضیاء الحق کی زیادتیوں کو دیکھ کر وہ اپنے اس فیصلے پر بہت پچھتائے اور اس کو سیاسی زندگی کی غلطیوں میں سے ایک غلطی قررار دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ جمہوریت کی بنیاد وطن عزیز کا مقدر سنوار سکتی ہے اور اسی سے اس ملک میں استحکام اور خوشحالی آ سکتی ہے۔
ٓذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء نے تمام سیاسی سر گرمیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن واسطی صاحب نے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تمام صحافیوں اور سیاست دانوں سے روابط قائم رکھے ۔ جنرل ضیاء کے دور میں انہوں نے تین مرتبہ جیل جانے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا۔وہ ہمیشہ جیل جانے کو فخر سے بیان کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حق کے راستے میں جتنی بھی مشکلات انسان برداشت کرتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ مزید سینہ سپر ہو کر باطل کا مقابلہ کرتے رہے۔
آپ لکھتے ہیںـ1983میں جنرل ضیاء حکومت تھی رمضان کا آخری روزہ تھا افطار کے بعد پولیس ڈی ایس پی نیو ٹائون کی قیادت میں مجھے میری تقریر کی وجہ سے گرفتار کرنے آگئی۔ صبح عید تھی میری بیٹی رونے لگی ۔ رونے کی وجہ سے خاصہ پریشان ہوا ۔ صورتحال کو دیکھ کر ڈی ایس پی نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ پریشان ہیں اور گرفتاری نہیں دینا چاہتے تو مجھے لکھ کر دے دیں کہ آپ سیاست سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ عجب صورتحال سے میں دو چار ہو گیا کچھ سمجھ نہ آئے کیا کیا جائے اتنے میں میری بیوی کا بڑے زور دار انداز کے ساتھ میرے پاس آئی اور کہا واسطی صاحب میں نے آپ کا سامان باندھ دیا ہے اور کپڑے تیار کر دیے ہیں ۔ کپڑے پہنیں اور جائیں ہم عید منانے آپ کے پاس جیل میں آئیںگے اور بیٹی کو چپ کرادیا اور پولیس کو کہا آئیں واسطی صاحب گرفتاری دینگے اور ان کو لے جائیں اور چند منٹوں میں پولیس کی گاڑی میںبیٹھا اور چلا گیا ۔ ( جاری ہے)