بدلتے عالمی حالات کے پاکستان پر گہرے اثرات

 گلوبل ویلج................مطلوب احمد وڑائچ 
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کے سیاسی موسم کے بارے میں حتمی طور پر کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔عمران خان سردست تو اقتدار میں آتے ہوئے نظر نہیں آ رہے لیکن عمران خان کے حق میں ہوائیں چلتی ہوئی ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ کس طرح؟ عمران خان کو زیادہ سے زیادہ اقتدار سے صرف ڈیڑھ سال تک ہی دور رکھا جاسکتا ہے۔ جیسے ہی ٹرمپ اقتدار میں آئیں گے عمران خان کے لیے بھی سیاست کے راستے کھلتے چلے جائیں گے کیونکہ پاکستان کی سیاست پر ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ امریکہ کا گہرا اثر ہے۔ ٹرمپ کس طرح سے اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے لیے اقتدار میں آنے کے راستے کھل گئے ہیں ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آ جاتے ہیں تو عمران خان کیسے اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ وہ اس طرح سے اقتدار میں آ سکتے ہیں کہ ٹرمپ کے دو ہی عالمی سطح کے لیڈروں میں سے دوست تھے۔ ایک عمران خان اور دوسرے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان تھے۔ ان دونوں کے ساتھ اگر جوبائیڈن کی مخاصمت تھی صرف اسی وجہ سے تھی کہ یہ دونوں ٹرمپ کے گہرے دوست تھے۔ 
عمران خان 2018ءمیں اقتدا رمیں آئے تو اس وقت ٹرمپ صدر تھے۔ شروع میں عمران خان کے ساتھ ٹرمپ کی بھی تھوڑی سی مڈبھیڑ ہوئی لیکن اس کے بعد پھر عمران خان اور ٹرمپ کے مابین تعلقات بہت ہی بہتر ہوتے چلے گئے۔ آج بھی ٹرمپ کی طرف سے عمران خان کے حق میں بیان دیا گیا ہے ۔وہ ان کو کرکٹ کے حوالے سے کس طرح جانتے ہیں اور کتنا بڑا کھلاڑی قرار دیتے ہیں۔ ا س سے پہلے بھی انہوں نے عمران کو اپنے ہاں کے بیس بال کے ہیرو سے تشبیہ دی تھی۔ مِکی مینٹل نے 1951سے 1968ءتک بیس بال ٹیم نیویارک ینکیز کی نمائندگی کی اور وہ امریکہ میں دی کامرس، دی میٹ اوردی میک کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔گلین بیک کے ریڈیو شو میں گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ عمران میرے دوست تھے اور انہوں نے مجھے سراہا جب میں نے داعش کی خلافت کا سوفیصد خاتمہ کر دیا تھا ۔کیونکہ یہ کام افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے زیادہ مشکل تھا۔یہ ٹرمپ کی طرف سے بات کی گئی تھی 2021ءمیں جب ٹرمپ امریکہ کے صدر نہیں تھے اور عمران خان بدستور اس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے مابین تین ملاقاتیں ہوئیں۔ملاقاتوں کے ذکر سے پہلے یہ تذکرہ کر لیں کہ جب عمران خان 2018ءمیں اقتدار میں آئے تو اس وقت ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے۔انہوں نے ایک ٹویٹ میں پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھاکہ امریکہ پچھلے پندرہ برسوں میں بے وقوفی میں پاکستان کو تینتیس بلین ڈالر کی مدد فراہم کر چکا ہے اور پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا وہ ہمارے لیڈروں کو بے وقوف سمجھتے رہے۔ 
اسی ٹویٹ میں ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی طرف سے دہشت گردو ں کی محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزامات بھی لگایا گیا تھا۔اس پر عمران خان کی طرف سے جواب دیا گیا تھا کہ مسٹر ٹرمپ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر ریکارڈ کی درستگی کی ضروری ہے۔ عمران خان نے مزید کہا تھا کہ 9/11کے واقعات میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں 75ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور ملکی معیشت کو 123ارب ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
یہ کشیدگی تھی شروع میں لیکن اس کے بعد پھرعمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا۔جولائی 2019ءکو واشنگٹن میں انہوں نے امریکی صدر سے وائٹ ہاﺅس میں ملاقات کی۔یہ ملاقات ایک اچھے ماحول میں ہوئی کیونکہ امریکہ اس سے قبل طالبان سے امن مذاکرات شروع کر چکا تھا اور طالبان کو امن کے لیے قائل کرنے کے لیے اسے پاکستان کی مدد درکارتھی۔ عمران خان کی طرف سے بھرپور طریقے سے امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی گئی تھی۔ ٹرمپ کی طرف سے اسی ملاقات کے دوران اور عمران خان کے دورے کے دوران پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالت بننے کی بھی پیش کش کی گئی۔کشمیر کے مسئلہ پر۔ایک اور ملاقات عمران خان اور ٹرمپ کے دوران ہوئی تھی یہ ملاقات جنوری 2020ءمیںڈ یووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں بھی ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی سربراہی میں دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔ ہم بہت اچھی طرح سے ایک ساتھ چل رہے ہیں میں یہ کہوں گا کہ ہم پاکستان کے کبھی اتنے قریب نہیں رہے جتنے آج ہیں۔
ادھر جیسے ہی ٹرمپ اقتدار میں آئے فوری طور پر سعودی عرب کے ولی عہد کی طرف سے خصوصی طور پر ٹرمپ کو مبارکباد دی گئی تھی۔ جوبائیڈن کو اسی وجہ سے عمران خان اور محمد بن سلمان سے کچھ رنجش سی پیدا ہوئی گئی کہ ان کے ٹرمپ کے ساتھ ایسے تعلقات کیوں ہیں۔جوبائیڈن کی طرف سے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ کہا جانے لگا تھا کہ جمال خشوگی کے قتل کے ذمہ دار سعودی ولی عہد ہیں۔جمال خشوگی کو ان دنوں استنبول میں قتل کر دیا گیا تھا ۔یہ سعودی نژاد امریکی شہری تھا۔ اس پر جوبائیڈن کی طرف سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کو ہم تنہا کر دیں گے۔ جس پر سعودی عرب کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔ بات ہم ٹرمپ کی کر رہے تھے کہ ٹرمپ جب اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا ۔یہ بھی جوبائیڈن کے لیے ایک حیران کن تھا۔ جب کہ ہر امریکی صدر جیسے ہی وہ حلف اٹھاتا سب سے پہلے وہ کینیڈا یا میکسیکو جاتا ہے۔ جوبائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو ان کی طرف سے کہا گیا کہ وہاں پر ان کی ان کے ہم منصب سے ہی ملاقات ہو گی۔ مطلب یہ تھا کہ یہ کنگ سلمان سے ملاقات کریں گے اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ہمارا وزیر دفاع اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات کرے گا، محمد بن سلمان سعودی عرب کے وزیر دفاع تھے۔ اس کو بھی سعودی عرب کی طرف سے ہتک آمیز سمجھا گیا۔یوکرین اور روس کی جنگ شروع ہوئی تو امریکہ کو احساس ہوا کہ سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ اس دوران توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔چودہ سال میں پہلی بار خام تیل کی قیمت 130ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی وہ ممالک ہیں جو لاکھوں بیرل تیل کی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ سعودی عرب کو جوبائیڈن انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں نے کئی بار تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کہا لیکن یہ کوششیں ناکام رہی ۔اس کے لیے وائٹ ہاﺅس میں مشرق وسطی کے امور کے لیے مقرر اعلیٰ عہدیدار بریڈ میک گرگ امریکی توانائی کے مشیر ایمز ہوجسٹین نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا لیکن وہ خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔
جوبائیڈ ن سمیت دنیا کے ایک بڑے حصے کو نظر آ رہا تھا کہ ٹرمپ کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ ان پر بھی عمران خان کی طرح بغاوت کے مقدمات درج کروانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ کیپٹل ہل کیس میں حساس دستاویز سمیت مختلف قانونی مسائل کا شکار امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے آئندہ سال ہونے والے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ اس کے لیے وہ بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اب اس حوالے سے انہیں عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ صدر ٹرمپ عوامی سروے میں اگلے صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن امیدواروں کی دوڑ میں سب سے آگے ہیںجبکہ موجودہ صدر جوبائیڈن پر بھی مقبولیت کے حوالے سے سبقت رکھتے ہیں۔ٹرمپ کے خلاف درج کیپٹل ہل کیس میں بغاوت کی شق کے تحت ان کا نام آئندہ صدارتی الیکشن کے بیلٹ پیپر سے ہٹانے کی درخواست مشی گن کی عدالت میں دائر کی گئی تھی جس کو عدالت نے مسترد کر دیا ۔ مشی گن کورٹ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی الیکشن لڑنے کے لیے نااہلی کا فیصلہ امریکہ آئین کے تحت کانگرس کو کرنا چاہیے۔ اس سے ٹرمپ کو انتخابا ت میں حصہ لینے کا موقع مل گیا ہے۔جس طرح سے ٹرمپ کی مقبولیت ہے تو امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی جیت کسی طریقے سے بھی ناممکن نہیں ہے، وہ جیت جائیں گے ۔اگر وہ جیت جاتے ہیں تو عمران خان کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن