نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور تمام ممالک بالخصوص اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہش مند ہے تاہم امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ گذشتہ روز ارکانِ سینٹ کو دیئے گئے عشائیہ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کے تنازعہ کے حل کے بغیر امن ممکن نہیں۔ ہم بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ بطور قوم ہم نے ماضی میں چیلنجوں سے نمٹا ہے اور اسی طرح مستقبل کے چیلنجوں سے بھی نمٹیں گے۔ ہم سب مل کر پاکستان کو مضبوط اود خوشحال ملک بنائیں گے۔ وزیر اعظم نے گذشتہ روز پی اے ایف اکیڈمی اصغر خاں میں پاکستان ائر فورس کی پاسنگ آو¿ٹ پریڈ کی تقریب سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے اس عزم کو دہرایا کہ وہ اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں تاہم کسی بھی جارحیت سے نمٹنے کے لیئے تیزی سے تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی کے تناظر میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ مسلح افواج کے قومی دفاع اورقومی تعمیر نو میں کردار کو پوری قوم نہائت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان خطے میں قیام امن کا صرف داعی ہی نہیں بلکہ اس کے لیئے عملی کردار بھی ادا کرتا ہے۔ افغان امن عمل میں اس کی بے لوث کوششیں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ چاہے اس کا صلہ کابل کی طالبان حکومت کی جانب سے ہمیں ایک دشمن ملک والا ہی مل رہا ہو۔ اسی طرح تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان نے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنے اور دو طرفہ تعلقات کو پر امن بقائے باہمی کے اصول کے مطابق فروغ دینے کی پالیسی طے کی مگر ہمارے پڑوسی بھارت نے ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے پاکستان کا وجود شروع دن سے ہی قبول نہیں کیا اور اس کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کا آغاز کر دیا۔ بھارت کے پہلےوزیراعظم جواہر لال نہرو تو اعلانیہ یہ دعوے کرتے رہے کہ پاکستان چھ ماہ کے اندر اندر واپس بھارت کی گود میں آگرے گا۔ نہرو کی یہ خواہش تو پوری نہ ہو سکی البتہ بھارت پاکستان کے ساتھ دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔اس سب سے پہلے ازاد ریاست جوں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اس کے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا حالانکہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت غالب مسلم اکثریت ہونے کے ناطے اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جس کے لیئے کشمیری عوام پہلے ہی اپنے نمائیندہ اجلاس میں فیصلہ کر چکے تھے اور بانءپاکستان قائداعظم نے بھی اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ بھارت نے خود ہی کشمیر میں افواج داخل کر کے اس پر اپنا تسلط جمایا اور پھر خود ہی کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے تصفیہ کے لیئے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا جہاں پاکستان نے بھی کشمیریوں کا کیس پیش کیا چنانچہ یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو یو این مندوب کی زیر نگرانی کشمیریوں کے لیئے استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی۔ بھارت نے پہلے تو اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ قبول کیا مگر پھر یو این قفار دادوں سے منحرف ہو کر اپنے آئین میں ترمیم کی اور کشمیر کو بھارت کی ریاست کا درجہ دے دیا۔ کشمیریوں کو یہ کسی صورت قبول نہیں تھا چنانچہ انہوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ عظیم جانی اور مالی قربانیوں سے لبریز یہ جدوجہد بھارتی جبروتسلط کے باوجود آج بھی جاری ہے جسے دبانے کے لیئے بھارت نے جہاں کشمیریوں پر مظالم کی انتہائ کی وہیں پاکستان کو عالمی فورموں پر کشمیر کے لیئے آواز اٹھانے سے روکنے کے لیئے اس پر تین جنگیں مسلط کیں۔ اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے ایٹمی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی اور اس کے ساتب ساتھ از پر آبی دہشت گردی کا ارتکاب بھی شروع کر دیا۔ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس کی بدنیتی بڑھتے بڑھتے کنٹرول کی سنگین خلاف ورزیوں تک آ پہنچی اور پھر اس نے دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں شروع کر دیں چنانچہ اپنی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے لیئے پاکستان کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا پڑی۔ اس کے بعد بھارت کو ہم پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی جرات تو نہیں ہو سکی مگر اس کی کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ اور اپنے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے اظہاز کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بھارت 26، 27 فروری 2019 ئ کو پاکستان پر فضائی حملے کی کوشش بھی کر چکا ہے جس پر اسے پاک فضائیہ کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی جبکہ اس نے اپنے تئیں کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کے لیئے پانچ اگست 2019ئ کو آپنےآئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیتب والی ترامیم لوک سبھا کے ذریعے ختم کراکے اپنے زیر تسلط جموں اور لداخ کو بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا لیا اور کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے پوری مقبوضہ وادی دس لاکھ بھارتی فوجیوں کی نگرانی میں دے دی جس نے گذشتہ چار سال سے کشمیریوں کو ان کے گھروں میں محصور کر رکھا ہے اور ظلم و جبر کاکوئی ایسا ہتھکنڈہ نہیں جو ان پر آزمایا نہ جا رہا ہو۔
کشمیریوں پر جاری ان مظالم کے خلاف آج بھی دنیا بھر میں ہر نمائیندہ فورم پر احتجاج کاسلسلہ جاری ہے۔ سلامتی کونسل، یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ سمیت ہر علاقائی اور عالمی فورم پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیئے آوازیں اٹھ رہی ہیں مگر بھارت کی مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ پاکستان کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ یہ صورت حال خطے کے امن و سلامتی کی تو ہر گز ضمانت فراہم نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اپنی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے لیئے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سمیت کوئی بھی قدم اٹھانے کا پاکستان کو حق حاصل ہے۔ یہی نگران وزیراعظم نے انسانی حقوق کے لیئے فکر مندی کا اظہار کرنے والی عالمی قوتوں کو باور کرایا ہے۔ ہمیں اپنی سلامتی کے تحفظ و دفاع سے زیادہ تو کچھ عزیز نہیں ہو سکتا۔ اگر علاقائی اور عالمی امن مقصود ہے تو پھر متعلقین بھارت کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھیں ورنہ بھارت کے ہاتھوں عالمی تباہی بعید از قیاس نہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وزیراعظم کاکڑ کا دو ٹوک موقف
Nov 23, 2023