برطانوی سیاست کے گھسے پٹے انداز

دنیا کے مختلف جزیروں اور ممالک پر تین سو برس تک حکومت کرنیوالا برطانیہ عظمیٰ جسے آج بھی Mother of Democracy کا غیرمعمولی اعزاز حاصل ہے‘ جس کی جمہوری پالیسیوں سے معرض موجود میںآئے عالمی جمہوری نظام سے بعض ترقی پذیر ممالک ہی نہیں پاکستان بھی پچھلے 76 برس سے استفادہ کر رہا ہے‘ حالات روز بروز ایسا رخ اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں‘ جہاں قومی سیاسی شعور کی کمزوریاں اب واضح نظر آنے لگی ہیں۔ یہ وہی گریٹ برٹن ہے جس کے زیر تسلط ریاستوں اور مملکتوں میں سورج کبھی نہ ڈبونے کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب ایشیائیوں اور رنگدار افراد کی محض مزورد اور محکوم شہری سے زیادہ اہمیت نہ تھی۔ کسی نے کبھی سوچا تک نہ تھا کہ ایک دن اسی برطانیہ عظمیٰ پر ایشیائی وزیراعظم اور پارلیمنٹ میں ایشیائیوں اور رنگدار اراکین کی نمائندگی ہوگی۔ برطانوی جمہوریت میں سیاسی بھونچال اس وقت آیا جب خوشحالی کے حصول کیلئے سکاٹ لینڈ آنیوالے چودھری محمد سرور جنہوں محنت مزدوری پر فخر کرتے ہوئے دن رات کر دیا۔ 11 لاکھ برطانوی پاکستانیوں کیلئے پہلے مسلم رکن پارلیمنٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ الگ بات کہ چودھری صاحب نے آجکل پاکستانی سیاست کے کانٹوں اور پھولوں میں خوشبو تلاش کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ چودھری سرور کے برطانوی سیاست میں آنے کے فوراً بعد برطانیہ بھر کی ایشیائی مسلم‘ ہندو‘ عیسائی اور رنگدار کمیونٹیز میں سیاسی شعور یکدم اجاگر ہوا۔ سکاٹ لینڈ کی ہی اگر بات کریں تو پہلے مسلمان سکاٹش منسٹر حمزہ یوسف اور لیبر پارٹی سکاٹ لینڈ کے سربراہ چودھری سرور کے صاحبزادے انس سرور برطانوی سیاست میں آج اہم ترین رول ادا کر رہے ہیں۔ ویسٹ منسٹر سیاست میں ارکان پارلیمنٹ میں جاوید‘ لارڈ طارق احمد شیڈومنسٹر‘ لندن کے میئر صادق خان‘ ہاﺅس آف لارڈز کے اراکین قربان حسین‘ سعیدہ وارثی سمیت متعدد پاکستانی مسلم‘ سکھ‘ ہندو اور کرسچن سرانجام دے رہے ہیں‘ اسی طرح ملک میں سینکڑوں ایشیائی کونسلرز‘ میئرز‘ اور شیرفز برطانوی سیاست میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ 
برطانیہ کا پہلے ایشیائی وزیراعظم کا اعزاز رشی سنک کے حصے آیا جسے برطانوی سیاسی تاریخ میں بلاشبہ یاد رکھا جائیگا۔ملٹی کلچر معاشروں کی بڑی خوبی یہ ہی ہوتی ہے کہ اقلیتوں اور مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ برطانیہ بلاشبہ اس معاملے میں سرفہرست ہے۔ 
حال ہی میں وزیر داخلہ کے عہدے سے برطرف کی جانیوالی شیلا بریورمین جو پیشہ کے اعتبار سے بیرسٹر ہیں‘ ایسی ایشیائی سیاست دان ہیں جنہیں متنازعہ شخصیت ہونے کی پاداش میں وزیراعظم رشی سنک کو برطرف کرنا پڑا۔ شیلا بریورمین کو انکی کنزیکٹو پارٹی کے بیشتر اراکین مبینہ طور پر منہ پھٹ قرار دے چکے ہیں جبکہ حالیہ غزہ مظاہرہ کی اجازت نہ دینے پر شیلا نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فلسطین اسرائیل جنگ بندی کی مخالفت کی تھی۔ جنگ بندی کی مخالفت وزیراعظم رشی سنک سمیت لیبر پارٹی اور ٹوری پارٹی بھی تاہنوز جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم شیلا کی زبان درازی اسے لے ڈوبی۔ اس بارے میں رشی سنک پر اراکین پارلیمنٹ اور برطانوی سیاسی حلقوں کا دباﺅ چونکہ زیادہ بڑھتا چلا جارہا تھا اس لئے رشی سنک کو مجبوراً اگلے روز شیلا کو برطرف کرنا پڑا۔ 
برطانوی سیاست اب ایک دلچسپ مگر عجیب موڑ میں داخل ہو رہی ہے‘ اسکی ایک بڑی حالیہ مثال ہمارے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرن کی جو ہاﺅس آف لارڈز کے رکن بھی ہیں‘ برطانوی حکومت میں بطور وزیر خارجہ تعیناتی ہے۔ وزیراعظم رشی سنک نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر خارجہ بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ برطانوی معیشت اور سیاسی استحکام کیلئے ڈیوڈ کیمرن کے فارن افیئرز اور بین الاقوامی ترقیاتی پالیسیوں کے وسیع تر تجربہ سے فائدہ اٹھانا موجودہ حالات میں ناگزیر تھا۔ چنانچہ اگلے روز انہوں نے ڈیوڈ کیمرن کو وزیر خارجہ کا عہدہ پیش کردیا۔ 
ڈیوڈ کیمرن جو Etonian اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور بلا کے حاضر جواب ہیں‘ دوران سیاسی گفتگو لفظوں سے کھیلنے کا انہیں خوب ڈھنگ آتا ہے۔ یہ وہی ڈیوڈ کیمرن ہیں جنہوں نے Brexit میں ووٹ آف کانفیڈنس نہ ملنے پر استعفیٰ دے دیا تھا اور یہ وہی ڈیوڈ کیمرون ہیں جنہوں نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے دوران وسطی لندن میں اپنے اعزاز میں دیئے گئے ایک عشائیہ کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ”اپنی زندگی میں کسی ایسے ایشین کو برطانیہ کا وزیراعظم بنتا دیکھنا چاہتے ہیں جو اعلیٰ برطانوی اقدار کا ہمیشہ تحفظ کر سکے۔ حسن اتفاق کہ آج انکی ہی خواہش رشی سنک کی صورت میں پوری ہو چکی ہے اور اس ایشیائی وزیراعظم نے انہیں لارڈز کا رکن ہونے کے باوجود وزیر خارجہ کی اہم ترین ذمہ داری سونپی ہے۔ لارڈز ڈیوڈ کیمرن نے یہ قومی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہد کیا کہ موجودہ مشکلات میں وہ اپنی تمام تر قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے برطانیہ کی سربلندی کیلئے اپنی خدمات وقف کرینگے۔ لارڈ ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرن نے فارن سیکرٹری کا عہدہ کیوں قبول کیا؟ سابق وزیر داحلہ شیلا بریورمین کی برطرفی اور کابینہ میں فوری ردوبدل سے وزیراعظم رشی سنک کیا کنزریٹو پارٹی کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اسرائیل فلسطین جنگ بندی کے خلاف ووٹ نہ دینے کے حکومتی اقدامات مو¿ثر ثابت ہونگے؟ لیبر پارٹی کے پچاس اراکین کا جنگ بندی کے حق میں دیا ووٹ اور لیبر پارٹی لیڈر Keir Starmer کا ووٹ دھندگان اراکین کو مبینہ طور پر سبکدوش کرنے کا فیصلہ آئند الیکشنز میں ٹوری پارٹی کی کی کامیابی پر کیا اثرانداز ہو سکے گا؟ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جن پر دیگر برطانوی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر سمیت مختلف سیاسی حلقے کنزرویٹو پارٹی کی پالیسیوں کا انتہائی عمیق نظری سے جائزہ لے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں ووٹرز کا فیصلہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مشروط ہوگا؟

ای پیپر دی نیشن