اوورلوڈنگ کے خلاف قانون یا کاروبار؟

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمیشہ سے بھارت میں اوور لوڈنگ پر اس قدر سخت ممانعت ہے۔ ہر مال بردار گاڑی کے دروازے پر خالی گاڑی کا وزن، وزن لے جانے کی قانونی اجازت اور مکمل وزن لکھا ہوتا ہے۔ ہر شہر کے خارجی و داخلی راستوں پر وزن کے کانٹے نصب کرکے ہر کمرشل گاڑی کا وزن کیا جاتا ہے اور جس گاڑی میں زیادہ وزن پایا جائے تو اس گاڑی سے اضافی وزن اتار کر بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے اور زیادہ وزن لوڈ کرنے والے کو طلب کرکے سخت کارروائی اور جرمانے کیے جاتے ہیں تاکہ کمرشل گاڑیاں لوڈ کرنے والی انڈسٹریز، ٹرمینلز وغیرہ گاڑی میں اضافی وزن لوڈ ہی نہیں کریں تاکہ وہ انڈسٹری اور ٹرمینلز بھاری سرکاری جرمانوں اور قانونی کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔ چند سال قبل تک بھارت پاکستان سے سیمنٹ خریدتا تھا کیونکہ بھارت کو سب سے سستا سیمنٹ پاکستان سے ہی ملتا تھا لیکن ہماری مال بردار گاڑیاں ڈبل وزن لے جاتی تھیں جس سے بھارت کی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر بھاری رقوم خرچ ہوئیں تو انھوں نے پاکستان سے سستا ترین پڑنے والا سیمنٹ خریدنا ترک کردیا اور اوور لوڈنگ کی اجازت نہیں دی۔اب یہی پاکستانی سیمنٹ پہلے دبئی جارہا ہے اور وہاں سے بھارت خرید کر لے جارہا ہے۔
پاکستان میں نیشنل ہائی وے اینڈ موٹرویز کا قانون کب بنا تھا؟ اس پر فوری عمل درآمد شروع کیوں نہیں کرایا گیا؟ حالانکہ اس وقت اتنی مہنگائی نہیں تھی اور اوورلوڈنگ پر پابندی کرائی جاسکتی تھی لیکن کئی دہائیوں بعد اب ایسے وقت میں اوورلوڈنگ پر پابندی کی کوشش سے نگراں حکومتوں کے لیے مسا ئل بڑھیں گے کیونکہ لوگ پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں اور ایسے وقت میں اوور لوڈنگ پر پابندی کرنے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے مسائل بڑھیںگے۔ اس وقت جو ٹریلر 60ٹن وزن لے جانے کا جو کرایہ وصول کرتا ہے اوورلوڈنگ پر پابندی کے بعد وہی کرایہ 36ٹن وزن لے جانے کا چارج کیا جائے گا۔ کاروباری افراد اور صنعت کار اس اضافے کا بوجھ براہ راست عوام کو منتقل کریں گے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
اوورلوڈنگ پر پابندی ہونی چاہیے لیکن اس پر سختی سے عمل درآمد کا یہ وقت مناسب نہیں۔ اب نگراں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ٹرانسپورٹرز، کیرج کنٹریکٹرز، کاروباری افراد اور صنعت کاروں کو بلاکر بات چیت کے ذریعے ایسا فارمولا نکالیں جس سے اوور لوڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ گڈز اور آئل ٹینکرز کی 22وہیلر گاڑیوں کو گاڑی سمیت ٹوٹل 75ٹن وزن، 18وہیلر کی گڈز اور آئل ٹینکرز گاڑیوں کو گاڑی سمیت 65ٹن جبکہ 10وہیلر گڈز اور آئل ٹینکرز گاڑیوں کو گاڑی سمیت 45ٹن میں پاس کیا جائے اور اس پر معاہدہ کرکے سخت ترین عمل درآمد کا آغاز کیا جائے۔ بے شک معاہدہ 5سال کے لیے ہو۔ اس کے بعد دوبارہ میٹنگ کرکے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلاکر پالیسی میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے بننے والی پالیسی پر ہر صورت میں سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے، پھر کسی بھی صورت میں اس میں کسی کو کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے اور اوورلوڈ گاڑی کو کسی بھی صورت سفر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اضافی وزن کو ضبط کرکے گاڑی مالک اور مال کے مالک دونوں پر جرمانہ ہو۔
معاہدے پر عمل درآمد کے بعد اضافی لوڈ پر سفر جاری رکھنا ناممکن ہو۔اس وقت تو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اوور لوڈنگ پر پابندی کو روکنا مقصد نہیں بنایا بلکہ اسے کاروبار بنایا ہواہے۔ موٹروے پر ہر کانٹے پر اوور لوڈ گاڑی سے 5000روپے جرمانہ لے کر اسے اسی لوڈ کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی اجازت ہے، یعنی گاڑی کراچی سے پشاور تک 50 ہزار روپے کاٹنا جرمانہ ادا کرتے ہوئے اضافی وزن کے ساتھ اپنی منزل تک جاسکتی ہے۔ یہ کیا طریقہ ہے؟ یہ تو صرف کاروبار ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح نہیں ہوتا۔ اضافی وزن کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی اجازت کیسے دی جارہی ہے؟ اسی لیے پاکستان میں کسی قانون پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا بلکہ ہر قانون کو کمائی کا ذریعہ بنالیا جاتا ہے۔گاڑیوں نے 5000روپے جرمانہ دینا اپنا معمول بنالیا تو کیا نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس انھیں جرمانہ وصول کرکے کراچی تا پشاور سفر کرنے کی اجازت دیتی رہے گی؟
دنیا بھر میں نیشنل ہائی وے کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے اور کوئی اوور لوڈنگ کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہاں پالیسیاں صرف اور صرف قومی مفاد میں بنائی جاتی ہیں اور قومی دولت خرچ کرکے بننے والی سڑکوں اور پلوں کی حفاظت اور حادثات میں کمی کے لیے سختی سے موٹروے اور ہائی وے قوانین پر عمل درآمدہر صورت یقینی بنایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انڈسٹری مالکان اور صنعت کار اسمبلیوں میں اور وزارتوں پر براجمان ہیں جو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔انڈسٹری مالکان کی تو ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ ان کے منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے۔ نیشنل ہائی وے آرڈیننس 2000ءکے تحت اوور لوڈنگ پر مکمل پابندی کا قانون رائج ہے اور قانون کے مطابق فی ایکسل وزن طے کردیا گیا ہے جس پر عمل درآمد کرکے سڑکوں اور پلوں کی حفاظت اور حادثات میں کمی لائی جاسکتی ہے لیکن صنعت کار کم کرائے میں زیادہ وزن کی ٹرانسپورٹیشن کراتے ہیں جس سے سڑکوں اور پلوں کی ٹوٹ پھوٹ پر سالانہ کھربوں روپے کا قومی نقصان ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی نیشنل ہائی وے آرڈیننس 2000ءکے تحت وزن کی فی ایکسل قانون کے مطابق مکمل پابندی کے لیے نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس بھرپور کوششیں کررہی ہے اور تمام موٹرویز اور ہائی ویز پر وزن کے کانٹے نصب کرکے آپریشنل کردیے گئے تھے لیکن کچھ عرصے بعد اوور لوڈنگ پر سختی ختم کردی گئی۔ صنعتکار کم وزن پر عمل درآمد میں اسی وجہ سے رکاوٹ ہیں کہ انھیں کرایوں میں معنی خیز اضافہ کرنا پڑے گا۔ مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے باعث 24کروڑ عوام معاشی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومت کی جانب سے انتہائی کنفیوز ماحول پیدا کرکے ٹرانسپورٹرز کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔
نگران وزیراعظم فوری طور پر اپنی صدارت میں یا نگران وفاقی وزیر مواصلات کی صدارت میں اوگرا قوانین اور نیشنل ہائی وے آرڈیننس 2000ءپر عمل درآمد کے ا یجنڈے پر اجلاس طلب کریں جس میں انڈسٹری مالکان، اوگرا، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، موٹروے پولیس، گڈز ٹرانسپورٹرز کے نمائندے، آئل ٹینکرز کے نمائندے اور متعلقہ شعبے سے وابستہ چیدہ شخصیات کو مدعو کرکے اتفاق رائے سے معاملہ فوری طور پر حل کرکے نوٹیفیکیشن جاری کریں۔ اوور لوڈنگ سے قومی شاہراہوں کا نقصان ہوتا ہے جن کی مرمت پر سالانہ کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور سنگین حادثات معمول کا حصہ ہیں۔ کنفیوژ پالیسی اور جرمانہ لے کر اوور لوڈ گاڑی کو سفر کی اجازت دیے جانے سے قانون کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں فوری قابل عمل متفقہ پالیسی کا اعلان کیا جائے تاکہ عام آدمی پر بوجھ بھی نہ پڑے اور صنعت کار‘ ٹرانسپورٹرز اور آئل ٹینکرز مالکان و کاروباری افراد بھی اتفاق رائے سے عمل درآمدپرراضی ہوں۔

ای پیپر دی نیشن