نظامِ کہنہ کی حامی قوتیں اور عمران خان

تحریک انصاف کی میری دانست میں فی الوقت اولیں ترجیح عدالت سے یہ سہولت حاصل کرنا ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات جیل میں نہیں بلکہ کھلی عدالتوں میں چلائے جائیں۔ وہاں پیش ہونے کے لئے وہ جیل سے لائے جائیں تو تمام ٹی وی چینلوں کا ائیرٹائم ان کی ذات تک محدود ہوجائے۔عدالت میں بلائے جانے سے قبل اور پیشی کے بعد جیل روانہ ہوتے ہوئے وہ صحافیوں سے گفتگو کریں۔ ان میں ادا ہوئے خیالات شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک کے ٹاک شوز پر چھائے رہیں۔
جی دار اور ذہین وکلاءکی ایک بھاری بھر کم ٹیم کے باوجود تحریک انصاف مگر مذکورہ ہدف کے حصول میں ناکام رہی ہے۔اپنے قائد کو ”ریلیف“ دلوانے کے لئے وہ جو بھی چال چلتی ہے وہ محاورے کی زبان میں اکثر الٹی پڑجاتی ہے۔عمران خان کے حامیوں کے ساتھ یہ ستم بھی ہورہا ہے کہ ریگولر اور سوشل میڈیا میں متحرک ان کے حامی عدالتی کارروائی اور ججز کے دئے چند ریمارکس کو اس انداز میں اجاگر کرتے ہیں جو اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی مشکلات آسان ہونے والی ہیں۔معاملہ جبکہ اس کے قطعاََ برعکس ہوتا ہے۔
اس کالم میں بارہا عرض گزارچکا ہوں کہ اب تک عمران خان کو جتنے بھی مقدمات میں الجھایا گیا ہے ان میں سے سائفر کیس سب سے اہم ہے۔سیاسی اعتبار سے چیئرمین تحریک انصاف کی اس ضمن میں اگرچہ خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت ”ریاستی رازوں“ سے مختص ”حساسیت“ کا اندازہ نہیں لگاسکتی۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی علم نہیں کہ ”سائفر پیغام“ درحقیقت کیا ہوتا ہے۔یہ جب اسلام آباد کے فارن آفس پہنچ جائے تو اسے کونسی”کلید“ لگاتے ہوئے ”ڈی کوڈ“ کیا جاتا ہے۔سائفر پیغام کو روزمرہّ زبان میں بیان کرنے کے لئے جو ”کلید“استعمال کی جاتی ہے وہ روزانہ بدل دی جاتی ہے۔یہ حقیقت حکومت کو عمران خان کے خلاف چلائے سائفر کیس کو ”خفیہ“ رکھنے میں مددگارثابت ہورہی ہے۔ حکومت کو ٹرائل کورٹ کے روبرو یہ ثابت کرنا ہے کہ جس سائفر کو عمران خان عوامی اجتماعات میں لہراتے ہوئے امریکہ کے خلاف عوامی جذبات ابھارہے تھے وہ درحقیقت اس زبان میں لکھا ہی نہیں گیا تھا جو قائد تحریک انصاف بتارہے ہیں۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے حکومت کو عدالت کے روبرو اس دن کی ”کلید“ عیاں کرنا ہوگی جو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کے بھیجے پیغام کو ڈی کوڈ کرنے کے لئے استعمال ہوئی تھی۔ مذکورہ ”کلید“ دنیا کی کوئی ریاست کھلی عدالت میں پیش کرنے سے گریز کرے گی۔ اس کا پبلک ہوجانا سفارتکاروں کے بھیجے پیغامات کو ”خفیہ“ نہیں رہنے دے گا۔ سائفر کے لئے مستعمل کلید کے علاوہ عمران خان کی زندگی کو لاحق خطرات نے بھی جیل ٹرائل کو ٹھوس جواز فراہم کردئے۔ غلطی اس ضمن میں چیئرمین تحریک انصاف سے یہ بھی ہوئی کہ وہ بذات خود اپنی زندگی کو لاحق خدشات کا تواتر سے ذکر کرتے رہے۔حکومت نے بہت مہارت سے ان ہی کے بیان کردہ خدشات کو جیل ٹرائل کی حمایت میں استعمال کیا ہے۔
تقریباََ ایک ماہ کی مشقت کے بعد تحریک انصاف منگل کے روز سائفر کیس کے حوالے سے ”آنے والی تھاں“ پر لوٹ آئی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے خلاف قائم ہوئے مقدمات کی بنیاد پر اعتراض نہیں اٹھائے۔ اصولی طورپر فقط یہ طے کیا ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ قواعد وضوابط کے واجب اطلاق کے بغیر جیل ٹرائل کی صورت چلایا گیا۔ان کے خلاف درج ہوئی ایف آئی آر اپنی جگہ مگر اب بھی قائم ہے اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کے شریک ملزم ہیں۔ اب ان دونوں کے خلاف ازسرنو فرد جرم عائد کرتے ہوئے گواہیاں بھگتائی جائیں گی۔ہائی کورٹ نے ایک اور فیصلے میں یہ حکم بھی دے رکھا تھا کہ سائفر کی وجہ سے قائم ہوئے مقدمے کو ایک ماہ تک نمٹا دیا جائے۔منگل کے روز آئے فیصلے کے بعد ”ازسرنو“ چلائی کارروائی غالباََ مزید وقت کا جواز فراہم کرے گی اور یوں معاملہ مزید کئی دنوں تک لٹک سکتا ہے۔
سائفر کے علاوہ چیئرمین تحریک انصاف کو حکومت نے مزید کئی مقدمات میں بھی الجھا رکھا ہے۔اس کے علاوہ ”اعترافی انٹرویو“ کے سلسلے بھی جاری ہیں جو 9مئی 2023کے واقعات کو ملک دشمنی ٹھہراتے ہوئے عمران خان اور ان کے جذباتی حامیوں کے خلاف ریاست کے لئے اقدامات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔پیر کی شام ہوا ایک انٹرویو چسکہ بھری غیبت کو بھی فروغ دے گا۔
گزشتہ کئی برسوں سے تحریک انصاف توانائی سے بھرپور سیاست کی علامت رہی ہے۔اس کے متحرک کارکنوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم نہایت ذہانت ومہارت سے عمران خان کو بہادر اور ثابت قدم دیدہ ور ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا لوگوں کی ذہن سازی میں یقینا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ٹویٹر،فیس بک ،انسٹا گرام اور ٹک ٹاک مگر اصل دنیا نہیں بلکہ Virtualیا متبادل دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ یہ خیالی دنیا حقیقی دنیا کا ٹھوس متبادل نہیں ہوسکتی۔ سوشل میڈیا اگر واقعتا ”حقیقی“ دنیا کا مظہر ہوتا تومصر ”عرب بہار“ ناکام ہوجانے کے بعد ایک بار پھر طویل فوجی آمریت کی لپیٹ میں نہ آتا۔تھائی لینڈ میں بھی نظام کہنہ سے اکتائے نوجوان کئی برسوں سے ”تبدیلی“ کی جدوجہد کررہے ہیں۔حال ہی میں وہاں انتخاب ہوئے تو سیاست میں ”نئے چہروں“ پر مشتمل نوجوانوں کی جماعت واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ نظام کہنہ کے حامیوں نے مگر ایک سابق وزیر اعظم کی جماعت سے مک مکا کرلیا۔ وہ ہمارے نواز شریف کی طرح ریاستی جبر سے بچنے کے لئے جلاوطنی میں دن گزاررہا تھا۔ اسے تھائی لینڈ لوٹنے کی سہولت فراہم کرتے ہوئے ”تبدیلی“ کا راستہ روک دیا گیا ہے۔پاکستان بھی ان دنوں ایسے ہی حالات سے گزررہا ہے جہاں نظام کہنہ کی حمایتی قوتیں جھکنے کو ہرگز آمادہ نہیں۔ان سے نبردآزما ہونے کی حکمت عملی تحریک انصاف سمیت ہماری کسی بھی سیاسی جماعت کو میسر نظر نہیں آرہی۔

ای پیپر دی نیشن