نواز شریف سندھ کا طوفانی دورہ کرنے والے ہیں

فیصل ادریس بٹ

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کے جارحانہ سٹائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نہ صرف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی بلک وفاق‘ پنجاب‘ بلوچستان میںحکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں بھی مستحکم ہوگی۔ میاںنوازشریف کی واپسی سے پہلے حالات ایسے نہ تھے۔ ان کی وطن واپسی کے بعد حالات نے سیاسی قلابازی لی ہے اورروزانہ کی بنیادپر مسلم لیگ (ن) کی برتری واضح ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان سے الیکٹیبلز کا بڑی تعداد میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوکر شیر کے نشان پہ الیکشن لڑنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئندہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن)حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگی۔ دو سیاسی پارٹیاںایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں کہ وہ کسی طرح وفاق میں حکومت بنا لیں۔ وفاق کی نمائندہ ایک پارٹی جس کا نام پیپلزپارٹی ہے‘ کا تعلق سندھ سے ہے جسے سندھ میں نمایاں سیٹیں جیتنے میںماضی میں تسلسل کے ساتھ برتری حاصل رہی ہے۔ دوسری پارٹی کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے جو پنجاب میں اکثریتی پارٹی بن کر وفاق میں اپنی حکومت بنانے میں اب سے پہلے تین مرتبہ کامیاب ہو چکی ہے۔ فیصلہ کن کردار صوبہ بلوچستان کا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری دعویٰ کرتے تھے کہ وہ خود بلوچ ہیں اس لئے بلوچ ان کا ساتھ کسی صورت نہیں چھوڑیں گے لہٰذا بلوچستان کے بڑے سیاستدان پیپلزپارٹی میںہی شمولیت اختیار کریںگے۔ آصف علی زرداری کے اس دعوے کی بنیاد میاںنوازشریف نے حالیہ دورہ بلوچستان میں ختم کر دی اور تمام اہم سیاستدانوںکو مسلم لیگ (ن) میں شامل کر لیا‘ بقایا کو مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کی دعوت دیدی جوانہوںنے قبول کر لی۔ اس طرح بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی دکھائی دے رہی ہے اوراگر بلوچستان مسلم لیگ (ن) نے جیت لیا تو پھر وفاق میں جانے سے انہیںکوئی نہیںروک سکے گا۔ میاں نوازشریف‘ میاںشہباز شریف اس مرتبہ ماضی کی سیاست کو چھوڑ کر نئی حکمت عملی کے تحت پارٹی کو لیکر چل رہے ہیں جس میں پی ڈی ایم کی طرز پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے عام انتخابات میں اتحاد کرنے پر فوکس کیا جا رہاہے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد میں آنے والی جماعتوںکومتوقع حکومت ملنے کی صورت میں ان کا حصہ برائے جثہ ملنے کی یقین دہانی بھی کروا دی گئی ہے۔ نوازشریف کے کیسز اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگر نوازشریف کے کیسز 8 فروری تک پایہ تکمیل تک نہ پہنچے تو مسلم لیگ (ن) نے پلان بی بھی تیار کر رکھاہے جس کے تحت وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے کسی ممبر قومی اسمبلی کو عبوری وزیراعظم منتخب کروایا جاسکتاہے جو نوازشریف کے منتخب ہونے تک وزارت عظمیٰ لیکرچلیں گے۔ شہبازشریف یہ عہدہ نہیں لیںگے۔ پارلیمانی پارٹی اور قائدین یہ فیصلہ کریں گے آنے والے وقت میںاگر نوازشریف کے کیسز مکمل نہیںہوتے تو وزارت عظمیٰ کا حما کس کے بیٹھے گا جہاں مسلم لیگ (ن) میں ناراض تنظیمی اور سینئر ساتھیوں کو منانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے‘ وہاںاس بات کی اشد ضرورت ہے کہ شریف برادران کے مایہ ناز سیاستدان میاں حمزہ شہباز کی ناراضگی اور گلے شکوے بھی دور کئے جائیں۔ میاں حمزہ شہباز اپنے تایا میاں نوازشریف سے متاثر ہوکر سیاست میں آئے تھے اور سیاست میں اپنا استاد اپنے والد میاں شہبازشریف کی جگہ وہ میاں نوازشریف کو کہتے ہیں۔ میاںحمزہ شہباز شریف خاندان کا نہ صرف ایک اہم سرمایہ ہیں بلکہ سیاستدان میں انہوں نے اپنی محنت‘ حکمت عملی اور تایا نوازشریف کے انداز سیاست کواپناتے ہوئے بہت زیادہ مقام حاصل کیا ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں میاں حمزہ شہباز شریف کا متحرک ہونا اس بات کو تقویت دے گا کہ مسلم لیگ (ن) ہی پنجاب میں الیکشن جیتے گی۔ پنجاب میںتنظیمی عہدیداروں‘ کارکنوں کے دکھ سکھ کے ساتھی اور ان کے مسائل کے حل کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔انہوں نے پنجاب بھر کے تمام اضلاع کے دورے کرکے تنظیمی عہدیداروں‘ ورکروں سے اپنا تعارف قائم کر رکھا ہے۔ ان کی یہ کارکردگی آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے اس مرتبہ فیصلہ کیا ہے کہ جیتنے والے امیدواروں کو ہی ٹکٹ جاری کئے جائیں گے۔ اس کام کیلئے (ن) نے سروے ایجنسیز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ اس مرتبہ ایک یہ بھی انوکھا طریقہ ہوگا کہ کسی قدآور یا کارکن کے حوالے سے ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے ان کا سروے ایجنسیز کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائے گا۔ اس لئے اس مرتبہ (ن) لیگ کو چند سو سیٹوں کے عوض پانچ ہزار کے قریب درخواستیں وصول ہوئی ہیں۔ جس پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس سروے ایجنسیز اور خفیہ رپورٹس کے بعد فیصلہ کرکے امیدواران کو ٹکٹ جاری کئے جائیں گے۔ اس حکمت عملی سے وراثتی سیاست کا خاتمہ بھی ہو سکے گا جو (ن) لیگ پر ہمیشہ الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ (ن) لیگ وراثتی سیاست کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ ٹکٹ جاری کرنے کے اس فعل سے اس پراپیگنڈے کا بھی قلع قمع ہوگا اور یوتھ کو بھی بڑے پیمانے پر ٹکٹس جاری ہو سکیں گے۔ نوازشریف‘ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں۔ اس سے قبل ایم کیوایم کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوچکی ہے۔ اس طرح آنے والے وقت میں نوازشریف سندھ کا دورہ کرنے والے ہیں سننے میں آرہا ہے کہ بلوچستان‘ خیبرپی کے کے بعد نوازشریف کا سندھ کا دورہ طوفانی ہوگا اور بہت سارے الیکٹیبلز مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کریں گے۔ میاں نوازشریف نے حال ہی میں صوبہ سندھ کی صدارت بشیر میمن کے سپرد کی ہے۔ بشیر میمن نے نوازشریف سے (ن) لیگ کو سندھ میں گراس روٹ لیول تک لے جانے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔ اگر سندھ میں ایسا ہو جاتا ہے تو پیپلزپارٹی کو سندھ حکومت بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا آصف علی زرداری یہ فیصلہ کرنے میں جلدی کریںگے کہ وہ پی ڈی ایم کی طرز پر (ن) سے اتحادکر لیں۔ سندھ حکومت کےساتھ ساتھ وفاق میں بھی اپنا شیئر وصول کرلیں۔ یہ ان کی سیاسی دانائی کا ثبوت ہوگا۔ اگر وہ مسلم لیگ (ن) سے اتحادمیںنہیں آتے تو سندھ حکومت ان کے ہاتھوں سے سرکتی محسوس ہورہی ہے۔ نوازشریف ساڑھے چار سال کی جلاوطنی کے بعد اپنے ملک واپس آئے ہیں۔ ان کوچاہئے کہ وہ اپنے تمام ناراض رہنماﺅں کو روزانہ کی بنیاد پر جاتی امراءپی ایم ہاﺅس میں ون ٹو ون مدعو کرکے پرتکلیف کھانے کھلائیں اور ان کی ناراضگی کی وجوہات دور کرنے کی کوشش کریں۔ چودھری نثار بھی ان کے دیرینہ ساتھی ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ ان سے بھی میاں نوازشریف کی عنقریب ملاقات ہو جائےگی۔خاقان عباسی بھی اعلیٰ خاندانی روایات سے جڑے شخص ہیں۔ ان کو بھی مدعو کرنا چاہئے تاکہ غیروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے سے وہ لطف نہیں آئے گا جو اپنوں کے ساتھ تخت حکمرانی پر بیٹھ کر تسکین حاصل ہوگی۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...