تخت لاہور کیلئے پارٹی کی تنظیم نو نے مہر تصدیق کردی

ندیم بسرا

پاکستان میں انتخابی میدان آج یا کل والا لگنے ہی والا ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو مکمل تیاری کرنا ہوگی۔تیاریاں اس لحاظ سے کہ وطن عزیز میں عوام کو کئی مسائل کا بیک وقت سامنا کرنا پڑرہا ہے۔مہنگائی کا جن عوام کی دہلیز سے اندر ان کے گھروں تک آچکا ہے۔اس وقت سب سے بڑا چیلنج مہنگائی میں کمی سر فہرست ہے جبکہ قومی سطح پر درپیش چیلنجز میں معیشت کی درستگی ،صنعتی پہیے کو چلانا اور ملک میں امن کا ماحول برقرار رکھنا شامل ہے۔ یقینا مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی سمیت ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں جن میں اب آئی پی پی بھی کسی حد تک شامل ہے کے منشور میں یہ ترجیحات ہونی چاہیے۔پیپلز پارٹی کی ن لیگ سے رفاقت سرد مہری میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سفر پیپلز پارٹی نے نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد بہت تیزی سے طے کیا ہے اب گلے شکووں کے ساتھ دوریوں میں پھر سے تیزی آگئی ہے۔نواز شریف ایک زیرک سیاستدان ہیں وہ اس صورت حال کا مثبت حل کہیں نہ کہیں نکال لیں گے۔جب مسلم لیگ ن کی بات ہوتی ہے تو تخت لاہور کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔جس میں مسلم لیگ ن کی لاہور کی تنظیم سازی کا ذکر نہ ہونے سے تحریر ادھوری ہی رہے گی۔
اس صورت حال کے بعد یہی محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن ان دنوں تنظیم سازی مکمل ہونے کے بعد انتخابات کی تیاریوں میں تیزی سے مصروف عمل ہے۔اس بات کا اندازہ پارٹی قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر ہی ہوگیا تھا جس میں ان کا تاریخی استقبال اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ مسلم لیگ ن واقعی ایک منظم جماعت بن کر ابھری ہے جس کا ایک تنظیمی ڈھانچہ بہرحال موجود تو ہے۔خاص طور پر لاہور کی تنظیم کو جس انداز میں ایک بار پھر منظم کیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور اس کا تمام تر سہرہ لاہور کے صدر ملک سیف الملوک کھوکھر کو جاتا ہے جنہوںنے ایک بار پھر تنظیم سازی کے ذریعے لاہور کے پارٹی رہنماﺅں اور کارکنوں کو نیا ولولہ اور جذبہ دیا۔ سابق صدر مسلم لیگ ن پرویز ملک کے دنیا سے جانے کے بعد ایسا نظر آرہا تھا کہ ن لیگ لاہور توڑ پھوڑ کا شکار ہوگیا ہے جس سے پارٹی ورکرز بددل ہونا شروع ہوگئے تھے اور اگر کہا جائے کہ لاہور تنظیم یتیم ہو چکی تھی تو بے جا نہ ہوگا اور پارٹی کارکنوں میں مایوسی پھیل رہی تھی تب اس مشکل وقت میں پارٹی قیادت میاں نواز شریف میاں شہباز شریف ،میاں حمزہ شہباز اور بی بی مریم نواز کی باہم مشاورت کے بعد ملک سیف الملوک کو لاہور مسلم لیگ ن کا صدر مقرر کردیا اور انہیں سب سے پہلا ٹاسک مسلم لیگ ن لاہور کی تنظیمِ نو کا دیا گیا۔ ملک سیف الملوک کھوکھر نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے رات دن ایک کردیا اور جو بھی پارٹی کے ناراض لوگ تھے خود چل کر ان کے گھروں میں گئے اور انہیں پارٹی تنظیم کی لڑی میں ایک بہتر انداز پرودیا، اورمیاں نواز شریف کے وطن واپسی کے موقع پر پارٹی کارکنوں کے اندر ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرکے پارٹی قائد کے استقبال کو چار چاند لگا دیے اور آج بھی وہ نہ صرف اپنے حلقے میں انتخابات کی تیاریاں کررہے ہیں بلکہ پارٹی کے دیگر عہدیداروں اور احباب کو بھی اپنے ساتھ لیکر چلتے نظر آتے ہیں۔ملک سیف الملوک کھوکھرنے اپنی جدجہد اور کارکردگی سے پارٹی قیادت کو مایوس نہیں کیا بلکہ ایک چٹان کی طرح میدان میں کھڑے رہ کر ثابت کیا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ملک سیف الملوک کھوکھر کی بطور صدر مسلم لیگ ن لاہور چوائس سو فیصددرست فیصلہ تھا۔جس طرح مسلم لیگ ن لاہور میں منظم ہوکر سامنے آئی ہے تو یقینا ملک کے دیگر علاقوں میں ن لیگ کی تنظیموں کو لاہور کی طرز پر منظم کیا جائے تو بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کو اگر پنجاب میں ن لیگ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو اس کو پنجاب میں اپنی تنظیم سازی بروقت مکمل کرنا ہوگی کیونکہ ان حالات اور پارٹی کی تنظیم سازی نہ ہونے سے پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہی ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...