تحریر :محمد عثمان
آج سے 21 برس قبل صوبہ پنجاب کے عظیم تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج سرگودھا کو ایک ایسی درس گاہ میں تبدیل کیا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ وطن عزیز کی صفِ اوّل کی جامعات میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئی اور اس ادارے کو غیر معمولی بنانے کا سہرا موجودہ اور سابقہ وائس چانسلرز، اساتذہ اور انتظامی افسران کی خدمات کو جاتا ہی ہے لیکن مبارک باد کے مستحق ہمارے وطن عزیز کے کونے کونے سے آئے ہوئے علم کے متلاشیوں کو بھی جاتا ہے جن کے والدین بھی اس کی معیاری تعلیم پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ یقینا یونیورسٹی آف سرگودھا کا قیام اس کے باسیوں کے لئے کسی باران ِرحمت سے کم نہیں۔ سوشیالوجی کے ماہرین کی بات بالکل درست ثابت ہوئی کہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد معاشی ترقی کے ساتھ معاشرتی ترقی بھی ہوتی ہے۔ ادارے کے قیام کے بعد یونیورسٹی میں مختلف ضروری شعبہ جات کا آغاز ہوا وہاں کچھ ایسے ڈیپارٹمنٹس کا بھی آغاز ہوا جو باقاعدہ قومی و مقامی علمی ماہرین کی مشاورت سے شروع کئے گئے۔ ایسے میں ایک معروف صحافی محمد ادریس مرزا نے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق کو یونیورسٹی میں ایک باقاعدہ شعبہ ابلاغیات کے قیام کا مشورہ دیااور اس تجویز پر انہوں نے عمل کرتے ہوئے اسے شروع کرنے کی اجازت دی۔ یہ وہ وقت تھا جب سرگودھا یونیورسٹی اپنے قیام کے ابتدائی دن گزار رہی تھی لیکن حقیقت میں اس کے بانی وائس چانسلر معروف ماہر تعلیم و محقق پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق نے سابقہ گورنمنٹ کالج سرگودھا کی تاریخی عمارت کو مزید اپ گریڈ کرتے ہوئے ادارے کو ایک ایسے خوبصورت مہکتے گلشن میں تبدیل کردیا کہ آج بھی یونیورسٹی کی تمام عمارات خوبصورتی اور کشادگی کی واضح اور روشن مثالیں ہیں۔ یہاں بات یونیورسٹی تعلیم کی ہورہی ہے جس میں بیتا ہوا ہر لمحہ طالب علم کی زندگی کا ایک سنہرا اور یادگار وقت ہوتا ہے لیکن ابتدائی لمحات بھی بہت بے چین ہوتے ہیں جب طالب علم اپنا نام میرٹ لسٹ میں تلاش کرتا ہے اور میرٹ پر آنے کے بعد اپنے پہلے ہی دن کو یادگار بناتے ہوئے اور آنکھوں میں چند سنہری خواب سجائے ڈیپارٹمنٹ داخل ہوتا ہے ایسے میں ہم نے بھی اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کے طالب علم بنے جس کا آغاز آج سے ٹھیک 20 برس قبل ہوا۔ اکتوبر 2003ءکے آخری عشرے میں اس کی کلاسز کا آغاز ایک انگلش لینگوئج کورس سے ہوا تاہم باقاعدہ کلاسز کا آغاز نومبر 2003ءمیں ہوا ۔ ڈاکٹر علمدار حسین بخاری اس کے پہلے صدرِ شعبہ مقرر ہوئے اور ہمیشہ دلوں میں بسنے والے اور کبھی نہ بھولنے والے محمد اعجاز احمد بھٹی (مرحوم) اس کے پہلے استاد مقرر ہوئے دیگر اساتذہ میں عامر افضل، محمد ادریس مرزا، ڈاکٹر اظہر پرویز، اسرار احمد وڑائچ، محمد فیاض، معروف جج اور قانون دان حفیظ اللہ خان شامل تھے۔ شعبہ کے ایڈمن میں نعیم اخترنے ایسی دل لگی اور جانفشانی سے کام کیا کہ آج وہ ترقی کرتے ہوئے گریڈ 17کے عہدے پر براجمان ہیں۔ مجھے آج بھی پہلے روز بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق کا پہلا دیا ہوا لیکچر یاد ہے جس کو میں نے ایک صحافی بن کر سنا اور لیکچر کے اہم نکات کو باقاعدہ ڈائری میں لکھا جس میں سب سے اہم نقطہ یہ کہ ”یونیورسٹی ابھی بالکل ابتداءمیں ہے اور آپ کو بطور طالب علم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم آپ کو کچھ فوائد بھی ہونگے جن کا آپ کو وقت گزرنے کے ساتھ پتہ چلے گا“۔ تعارفی سیشن آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے جب استادِ محترم اعجاز احمد بھٹی نے ہر طالب علم کو ڈائس پر بلا کر اس کا تعارف لیا اور مجھے ایک کلاس فیلو تو آج بھی یاد ہے جو بات کرنے اور تعارف کرانے کے ڈر سے ابتدائی دنوں میں شعبہ کو الوداع کہہ گیا۔ جیسا کہ میں نے عنوان میں لکھا کہ شعبہ ابلاغیات کامیابی و کامرانی کی ایک باقاعدہ داستان ہے اگر اسے ایک خبری لوازم کے طور پر دیکھا جائے کہ یہ کیا، کب، کہاں، کیوں ،کیسے وغیرہ کے طور پر تو شعبہ نے کامیابی کا اعلان یونیورسٹی میں ایک عظیم الشان سیمینار سے کردیا تھا جس کا عنوان ”جدید نظام نو آبادیات اور ابلاغِ عامہ“ تھااس سیمینار میں ملک بھر سے نامور لکھاریوں اور صحافیوں نے شرکت کی اور تقریب کے مہمان خصوصی معروف ادیب منو بھائی تھے۔ وقت گزر رہا تھا ، موسم بدل رہے تھے اور یادوں کے موسم بھی آباد ہورہے تھے کہ یونیورسٹی میں غیرمعمولی نوعیت کی تقریبات کا آغاز ہوگیا جس میں شعبہ ابلاغیات کے طالب علم بطور منتظم ، پراکٹر اور رضا کار کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیتے اور صدرِ شعبہ اور وائس چانسلر سے شاباشی لیتے۔ میں یہاں یہ بیان کرتا چلوں کہ پوری یونیورسٹی میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ ”زندگی تو ماس کمیونیکیشن والوں کی ہے“ لیکن یہ بات بھی عیاں تھی کہ دینی و اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے شعبہ کے طالب علموں نے غیر سنجیدگی کامظاہرہ کرتے کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ابلاغیات کے طالب علموں کو اعتماد دلانے اور ان میں کام کرنے کا جذبہ پیدا کرنے اور ایک باشعور و باوقار طالب علم بنانے میں ہردل عزیز مرحوم استاد اعجاز احمد بھٹی کا ایک کلیدی، نمایاں اور پرخلوص کردار تھا۔ اعجاز احمد بھٹی ہم سب کے اعجاز کہلائے اورشعبہ کی جان کہلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے ، شعبہ کے انچارج رہے ، ہر طالب علم کے ساتھ انتہائی شفیقانہ رویہ رکھتے، آپ کے ہزاروں طالب علم آج بھی آپ کی جدائی اور یاد میں اپنی آنکھوں میں آنسو بھر لاتے ہیںکیونکہ بہت جلد آپ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ استاد محترم نے اپنی زندگی قرض خواہوں جیسی بنا لی تھی لیکن وہ حقیقت میں نادہندہ تھے۔ ہر قابل اور محنتی طالب علم کو ایک مقام پر پہنچایا جس کی ایک بہت بڑی مثال شعبہ ابلاغیات کے موجودہ چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سید حسن رضا شیرازی ہیں اور وہ آج شعبہ ابلاغیات میں یہ سب سے بڑی کامیابی حاصل کی کہ وہ گریڈ 21 کے مایہ ناز محقق، استاد، پروفیسر حسن رضا شیرازی ہیں۔ شعبہ ابلاغیات کے ابتدائی اساتذہ میں ڈاکٹر ارم سلطانہ، نوید اقبال چوہدری اپنی قابلیت اور محنت میںاپنی مثال آپ تھے۔ 20 برس کا قصہ ہے لیکن دو چار برس کی بات لگتی ہے کہ شعبہ کو پروان چڑھانے میں اور اعجاز احمد بھٹی کا مشن آگے بڑھانے میں بہت ہی نفیس انسان اور ہمدرد استاد محترم نعمان یاسر قریشی کی خدمات ناقابل فراموش ہیںجنہوں نے یونیورسٹی میں میڈیا انفارمیشن سنٹر کی داغ بیل ڈالی اس کی بدولت جدید سٹوڈیو کا قیام عمل میں لایا گیا جو ڈیجیٹل دور کی ضرورت کے ساتھ میڈیا کے طالب علموں کی ٹریننگ کا ایک حسین اقدام ہے اور آج کل صدرِ شعبہ کے ساتھ مل کر اس کو مزید اپ گریڈ کرنے اور نئی جہتیں متعارف کرانے میں سرگرم عمل ہے۔ایسے میںاستاد محترم ڈاکٹرمدثر حسین شاہ، ڈاکٹر صائمہ کوثر، شجیع حسن،مریم اکرام، فراست جبیں، ڈاکٹر طارق نواز اور ڈاکٹر فیصل عزیز کی بطور استاد خدمات بھی غیر معمولی ہیں۔ نعمان یاسر قریشی ایک بہت نفیس انسان اور نیک سیرت استاد اکثر محفلوں میں کہتے ہیں کہ میرے لئے تمام طالب علم بہت عزیز ہیں تاہم میں سال (2003-2005ء)کا پہلا سیشن کبھی فراموش نہیں کرسکتا جس کے طالب علموں نے کامیابیوں کی داغ بیل ڈالی۔ میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ کسی سے اپنی تعریف کروانا مقصود نہیں لیکن حقیقت میں شعبہ ابلاغیات کے بانی طالب علم، اساتذہ کے علم کے سائے میں سنجیدگی اور مثبت طرز پرمکمل مصروف عمل رہے۔ یونیورسٹی کرکٹ کے چمپئن بنے، ایتھلیٹکس میں نمایاں پوزیشنیں لیں، تحریر و تقریر میں آل پاکستان ، آل پنجاب مقابلہ جات جیتے اورگورنرپنجاب/ چانسلرو صدر پاکستان سے انعامات لئے، سات سمندر پار کے دورے حاصل کئے، کامیاب سیمینارز، گروپ ڈسکشنز کا آغاز کیا،اسٹیج پر آکر ایسے اعتماد سے اداکاری کی کہ کچھ عرصہ کے لئے اداکار طالب علموں کو باقاعدہ بین بھی کرنا پڑا، اپنے طور پر مقامی اخبارات میں خبریں، تجزئیے اور رپورٹیں لکھیں، رضاکارانہ طور پر ایک یونیورسٹی نیوز لیٹر کا آغاز کیا۔ زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے رضاکارانہ طور پر بالا کوٹ پہنچے، معروف صحافی اسرار احمد وڑائچ نے پانچ طالب علموں کو بہت بڑے قومی اخبار میں مجھ جیسے خاکسار سمیت باقاعدہ ایڈجسٹ کیا۔ ابلاغیات کے اس سفر میں 2007ءمیں پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز محسود نے شعبہ ابلاغیات میں علمی و تحقیقی رفتار تیز کی، بی ایس ، ایم فل کی ابتداءکی، طالب علموں کے معیاری نظم و ضبط کو اور اپ گریڈ کیا، استاد محترم محمد ادریس مرزا نے آپ کے زیر سایہ VOVایم ایف 98.2کا آغاز کیا اور آج یہ ریڈیو یونیورسٹی اور اس کے گرد و نواح میں معلوماتی ، دور حاضر ، ادبی ، ثقافتی اور خوبصورت آوازوں کے ذریعے جادو جگا رہا ہے۔ اسٹیشن انچارج ڈاکٹر فیصل عزیز،پروڈیوسر ثاقب الماس اور زبیر خالد اسی شعبہ ابلاغیات کے فارغ التحصیل ہیں۔ مجھے آج بھی فخر ہے کہ میں افسر تعلقات عامہ سے ترقی کرتے ہوئے آج بطور انچارج تعلقات عامہ و مطبوعات یونیورسٹی آف سرگودھا گذشتہ 17 برس سے اپنے شعبہ اور اساتذہ کی بدولت خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔کامیابی و کامرانی اور حاصلات میں بے پناہ صلاحیتوں کے مالک سابقہ طالب علم ڈائریکٹر محکمہ داخلہ حکومت پنجاب عدنان خالق بھٹی، غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل مہر عمر دراز جھاوری ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ اور صدر اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن شعبہ ابلاغیات، سینئر بزنس منیجر روزنامہ نوائے وقت چوہدری عثمان مسعود گجر، ڈپٹی ڈائریکٹر یونیورسٹی آف ایجوکیشن سلمان اکرم اعوان، اسسٹنٹ پروفیسرگجرات یونیورسٹی فائزہ باجوہ، ڈائریکٹر میڈیا ریسکیو 1122 محمد فاروق، پرنسپل عرفان اکبر چوہدری، حافظ مسرور، معروف بزنس مین عثمان وڑائچ، نوید وڑائچ، سیاستدان خاور عباس لک، ریسکیو آفیسر رانا ہمایوں کمال، ہردلعزیزاستاد اور محقق اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ابلاغیات ڈاکٹر عبدالرحمن قیصر، لیکچرر شعبہ ابلاغیات عبدالرحمن مدنی شامل ہیں۔ یہاں میں ایک ضروری بات عرض کرتا چلوں کہ سرگودھا یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس کہتے ہیں کہ ہمیشہ یونیورسٹی کا محور و مرکز اس کے طالب علم ہی ہوتے ہیں جن کی بدولت یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے اور طالب علم معاشرے کے کامیاب شہری اور قیمتی سرمایہ اسی وقت بنتے ہیں جب انہیں مکمل رہنمائی ملے، شعبہ ابلاغیات آج کامیاب و کامران ہے ، ایک روشن ماہتاب کی طرح چمک دمک رہا ہے کیونکہ اسے ایسے اساتذہ کی رہنمائی ملی کہ یہاں سے فارغ التحصیل 100 سے زائد طالب علموں نے گزٹیڈ نوکریاں حاصل کیں، وطن عزیز کے قومی صوبائی محکمہ جات میں نمایاں عہدوں پر تعیناتی‘ مقابلہ جات کے امتحان میں کامیابی، آئی ایس پی آر میں خدمات، افسر تعلقات عامہ، کامیاب ایڈورٹائزر، انٹرنیشنل ہاکی پلیئر، ڈیجیٹل میڈیا، این جی اوز، قومی اخبارات میں ایڈیٹرو رپورٹر، پاکستان ٹیلی ویژن میں پروڈیوسرو رپورٹر، نجی ٹی وی چینلز میں نیوز کاسٹرز، پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز و رپورٹرز، بینک آفیسر، میڈیا بزنس منیجر اور سب سے بڑھ کر وطن عزیز کی جامعات میں لیکچر سے لے کر پروفیسر کی تعیناتی ، پنجاب پبلک سروسز کمیشن کے ذریعے ابلاغیات کے استادیقینی طور یہ اساتذہ شعبہ ابلاغیات کا فخر اور اس کے تاج میںسُرخاب کا پَر ہیں۔ شعبہ ابلاغیات کے فارغ التحصیل طالب علم یونیورسٹی آف سرگودھا میں انتظامی امور بھی سرانجام دے رہے ہیں جن میں میڈیا انفارمیشن سیل کے سید حسن رضا ہاشمی، افسر تعلقات عامہ رانا فیصل جاوید، اسسٹنٹ رجسٹرار ہم نصابی فورم دائم اقبال اور اسٹیٹ آفیسر رانا قدوس زین العابدین شامل ہیں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ رب العزت سے دعا ہے کہ کہ یہ شعبہ اسی طرح ترقی ، کامیابی و کامرانی کے راستے پر گامزن رہے۔اس کے طالب علم اپنے ذہنوں میں نشانِ منزل کو تازہ رکھتے ہوئے اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں مزید کامیابیاں حاصل کریں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی عزت کریں اور انہیں وہ مقام و مرتبہ دیں جو ہمارا فرض ہے اور ایک استاد کا حق ہے۔