تحریر - محمد فاروق عزمی
13 نومبر 2024 کی سہ پہر اڑھائی بجے الحمرا آرٹس کونسل میں علامہ اقبال
علیہ رحمہ کی یاد میں ایک شان دار تقریب منعقد ہوئی۔ جس کا اہتمام ریٹارئرڈ انسپکٹر جنرل پنجاب جناب ذوالفقار احمد چیمہ نے کیا تھا۔ جو علامہ اقبال کونسل کے چیئرمین ہیں۔ تقریب کی صدارت ماہر اقبالیات جناب ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے فرمائی۔ ذوالفقار احمد چیمہ صاحب نے اپنے خطاب میں علامہ اقبال کے بے شمار اشعار سنائے آپ نے جس موضوع پر بھی گفتگو کی اس موضوع کی مناسبت سے علامہ اقبال کے شعر سنا کر موضوع کو سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی اور اس سے فکر اقبال کی وضاحت بھی احسن طریقے سے ہو گئی۔ چیمہ صاحب نے موجودہ دور میں اقبال سے بے اعتنائی کا شکوہ کیا اور پاکستان میں اقبال کو یکسر بھلا دینے کی کوششوں اور غفلت پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے افکارِ اقبال سے اغماض برت کر کیا کیا صدمات اٹھائے اور ہمہارے برعکس، ایران ترقی اور ملائیشا سمیت دیگر کئی ممالک میں اقبال کو کس طرح تسلیم کیا جاتا ہے اور ان سے عقیدت اور محبت کا اظہار کس شدت سے کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی اور کوتاہ نظری ہے کہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہونے کے باوجود ہمارے حافظے سے محو ہوتے گئے اور غیر ممالک جن میں سر فہرست ایران ہے ، نے"اقبال" کو اپنی فکری اساس بنا لیا۔ چیمہ صاحب کے علاوہ دیگر مقررین کو بھی یہ شکوہ تھا کہ ہماری نوجوان نسل اقبال سے آشنا نہیں رہی اور اس کی بنیادی وجہ انگریزی تعلیم کا خمار ہے۔ آج ستم یہ ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہونے کے باوجود نئی نسل اردو سے نابلد ہے۔ اقبال کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے۔ لیکن فارسی تو شاید دور کی بات ہے ہم نے اردو کو بھی دیس نکالا دے دیا ہے۔ کسی ملک نے اپنی قومی زبان سے ایسی بے مروتی نہیں برتی جس طرح کی بے توقیری ہم نے اردو کی ، کی ہے۔ عدالتِ عظمٰی کے اس کے فیصلے کے باوجود کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر نافذ کیا جائے۔ خود ہماری عدالتِ عالیہ و عظمٰی میں اس فیصلے کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور انگریزی ذہنیت کی غلامی کو قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ بیادِ اقبال کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں دو قرار دادیں بھاری اکثریت سے منظور کی گئیں۔ پہلی قرار داد ایف سی کالج کے شعبہ اردو کے ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے پیش کی۔ جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اردو کو فلفور سرکاری زبان کے طور پر پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے۔ حاضرین نے دونوں ہاتھ کھڑے کر کے قرار داد کےحق میں ووٹ دیا اور ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔
دوسری قرار داد معروف کالم نگار اور دانشور جناب ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے پڑھ کر سنائی جس کا متن یہ تھا کہ اقبال ،کلام اقبال اور افکارِ اقبال کو پاکستانی تعلیم کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ یہ قرار داد بھی اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی اور ایک بار پھر ہال میں موجود ہر شخص نے ہاتھ کھڑا کر کے اپنا فیصلہ علامہ اقبال کے حق میں سنا دیا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے خطبہ صدارت میں خاص طور پر نوجوان نسل کو مخاطب کیا۔ طلبا اور طالبات کی ایک بڑی تعداد ہال میں موجود تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ علامہ اقبال کے کلام کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کردار اور افکار سے متعلق کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں۔ یہاں انہوں نے درج ذیل چند کتابوں کے نام بھی بتائے جو علامہ اقبال کے بارے بہترین
کتب میں شمار ہوتی ہیں۔انہوں نے ان کتابوں سے مختصر اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔انہوں نے خاص طور پر جن کتابوں کا ذکر کیا ان میں سے چند یہ ہیں
۱۔ ملفوظاتِ اقبال - از محمود نظامی
۲۔ روزگارِ فقیر۔ از۔ سید وحید الدین (۲ جلدیں)
۳۔ اقبال ، شخصیت اور شاعری - از - رشید احمد صدیقی
یہاں مجھے میں ایک کتاب یاد آ رہی ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے۔ یہ جناب ع۔ م۔ چودھری کی مرتب کردہ ہے اور اس کا نام ہے " اقبال بعد از وصال " میں اس کے مطالعے سے لطف اندوز ہو چکا ہوں اور قارئین کو مشورہ ہے کہ وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ فرمائیں اور دیکھیں کہ علامہ اقبال کا کیا رتبہ اور مقام ہے۔ یہ کتاب قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو اقبال سے روشناس کرایا جائے۔ وہ نسل جس کا یہ حال ہے کہ انگریزی ذہنیت کی غلامی میں جکڑے (انگلش میڈیم ) سکول میں پڑھے ایک سالِ دوئم کے طالب علم سے میں نے پوچھا کہ " لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" یہ دعائیہ نظم کس کی لکھی ہوئی ہے ؟ تو اس کا جواب نفی میں تھا کہ اسے نہیں پتا کیوں کہ اس نے کبھی یہ نظم نہیں سنی۔ پھر اس نے کچھ لمحوں بعد مجھ سے پوچھا کہ یہ کس نے لکھی ہے تو میں نے طنزاً کہہ دیا کہ " استاد امام دین گجراتی " نے۔ تو اس نے اس پر ہی یقین کر لیا۔ میرے یہ پوچھنے پر کہ ہمارے قومی ترانے " کے خالق کون ہیں ؟ تو اس بچے کا جواب تھا ، جناح ، قائد اعظم محمد علی جناح ، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں روو¿ں یا ہنسوں ؟ میں نے اسے تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھی اقبال کی نظم " جگنو اور بلبل " جب فرفر سنائی اور بتایا یہ غالبا 1967 میں پڑھی اور یاد کی تھی پھر اس کے بعد حافظے کی ٹہنی سے نہ وہ بلبل اڑا نہ اس جگنو کی روشنی ہی کسی اندھیرے میں ماند پڑی اور اب بھی میں اپنے نواسی نواسوں اور پوتے پوتیوں کوجب یہ سناتا ہوں کہ
ٹہنی یہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا۔
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا۔۔۔
تو آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور اداسی کی لہر روح میں اتر جاتی ہے کہ ہم نے انگریزی کی چاہ میں کتنی خوبصورت چیزیں کھو دی ہیں۔ جو صرف اردو اور فارسی میں ہی دستیاب تھیں۔
منہ بگاڑ کر انگریزی میں بات کرتے ہمارے صاحبِ اختیار و صاحبِ اقتدار لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے کہ جانے وہ کس احساسِ کمتری میں مبتلا ہے کہ اپنی زبان میں بات کرتے ان کی زبانوں پر آبلے پڑ جاتے ہیں۔
انگریزی ذہنیت کے مارے غلامو !
اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرو ،اردو بولو ، اردو لکھو اسے ذریعہ تعلیم بناو¿۔ ملک تیزی سے ترقی کر? گا۔ تمہیں اردو کی وسعت کا اندازہ نہیں۔ انگریزی میں گِٹ مٹ گِٹ مٹ کر کے تم نے پون صدی میں کیا ترقی کر لی ہے ؟ اردو کو اس کا حق دو۔ اس کو نافذ کرو۔
اپنے اکابرین کے افکار کو اپناو¿ یہی ترقی کا راستہ اور وقت کا تقاضا ہے۔