سیّد روح الامین
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
”سارے جہاں“ میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(داغ دہلوی)
علامہ محمد اقبال نے اپنی زندگی آموز شاعری سے اسلامیان ہند کے خون کو گرمایا، نظریہ وطن کی نفی کرکے ”اسلام تیرا دیس ہے۔ تو مصطفوی ہے“ کا سبق دیا اور اس کی اساس پر سیاست ہند میں دو قومی نظریہ کا شعور پختہ کیا اور آخر کار مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا مطالبہ پیش کردیا جو بعد میں نظریہ پاکستان کے نام سے موسوم ہوا۔ جسے بعد میں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی بے مثال جدوجہد سے دو قومی نظریہ کو انگریزوں اور ہندوﺅں سے منوایا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالی۔ مذہب اور ثقافت اقبال کو کس قدر عزیز تھے۔ اس کی وضاحت علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس ۲۳۹۱ءمنعقدہ لاہور میں اس طرح کی: ”حب الوطنی کلیتاً ایک فطری وصف ہے جس کا انسان کی اخلاقی زندگی میں ایک مقام ہے لیکن جسے اصل اہمیت حاصل ہے وہ ہے انسان کا عقیدہ اس کی ثقافت اور اس کی تاریخ روایات۔ میری رائے میں یہ وہ اقدار ہیں جن کے لیے انسان کا جینا اور مرنا وقف ہوسکتا ہے نہ کہ اس خطہ خاک کی خاطر جس کے ساتھ اس کی روح اتفاقاً عارضی طور پر وابستہ ہوگئی ہو“۔ علامہ اقبال کے دل میں اردو زبان کی کیا قدر و منزلت تھی اور جس طرح انہوں نے اردو کے دامن کو اپنے افکار اور حسین و جمیل اسالیب اظہار کے موتیوں سے بھرا۔ اس کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن علامہ اقبال کی نظر میں اردو کی ثقافتی اہمیت ان خطوط سے واضح ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کو لکھے تھے۔ ان خطوط سے علامہ اقبال کی اُردو سے محبت کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے اردو زبان کو ایک مستحکم وسیلہ بقاءاور قومی اتحاد و ملت سمجھتے تھے۔ یہ خطوط دو مختلف کتابوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک اقبال نامہ (مکاتیب اقبال) مرتبہ شیخ عطاءاللہ حصہ دوم میں ۔دوسری ممتاز حسن صاحب کی کتاب اقبال اور عبدالحق مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور میں۔ مکتوبات علامہ اقبال بنام بابائے اردو مولوی عبدالحق مرتبہ ممتاز حسن سے لیے گئے ہیں۔“ لاہور، ۱۲ اکتوبر ۶۳۹۱ء”آپ کی تحریک سے ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ کئی اعتبار سے یہ تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سرسیدؒ نے کی تھی۔“ لاہور ۸۲ اپریل ۷۳۹۱
گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
(علامہ محمد اقبال)
”اردو کی اشاعت اور ترقی کے لیے آپ کا دلی میں نقل مکانی کرنا بہت ضروری ہے معلوم نہیں کہ آپ کے حالات ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کرسکتا۔ لیکن افسوس کہ ایک تو علالت پیچھا نہیں چھوڑتی۔ دوسرے بچوں کی خبر گیری ا وران کی تعلیم و تربیت کے افکار دامن گیر ہیں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔“ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس اکتوبر ۷۳۹۱ءمیں لکھنو میں ہونا طے پایا تھا۔ ۳۲ ستمبر ۷۳۹۱ءکو ایک خط کے ذریعے سے قائداعظم نے بابائے اردو کو اس جلسے میں شمولیت کی بطور خاص دعوت دی۔ علامہ اقبال کو معلوم ہوا تو انہوں نے ۷ اکتوبر ۷۳۹۱ءکو مولوی عبدالحق صاحب کو تاکیدی خط لکھا اور فرمایا: ”میں نے سنا ہے کہ لیگ کی طرف سے آپ کو بھی لکھنو آنے کی دعوت دی گئی ہے براہ عنایت اس سفر کی زحمت ضرور گوارا فرمائیے۔ اردو کے متعلق اگر لیگ کے کھلے سیشن میں کوئی مناسب قرار داد منظور ہوجائے تو مجھے یقین ہے کہ اس کا اثر بہت اچھا ہوگا۔“ ۱۲ اپریل ۳۵۹۱ءکو علامہ اقبال کی برسی کے موقع پر بابائے اردو نے ریڈیو پاکستان سے ایک تقریر میں انہوں نے علامہ اقبال سے اپنی ایک اہم گفتگو کا انکشاف کیا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ علامہ محمد اقبال سے ایک ملاقات کے آخر میں، میں نے کہا کہ ”میں چاہتا ہوں سارے ہندوستان میں اردو کی اشاعت کا جال پھیلا دوں۔ یہ سن کر علامہ اقبال نے فرمایا: ”صرف ہندوستان میں۔“؟ مولوی صاحب نے ان الفاظ پر اپنی تقریر میں یوں تبصرہ کیا:
”یہ تین لفظوں کا انتہائی مختصر جملہ بہت پر معنی تھا ۔یہ ایک حکیم شاعر کے دل کی آواز تھی یعنی وہ اردو کو نہ صرف برصغیر پاک و ہند ہی کی نہیں، سارے ایشیا کی ممتاز زبان دیکھنا چاہتے تھے۔“
اس مُلک میں چاہے ہُن برسے
اُردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
(ماہرالقادری)
uuu