الٹ پھیر
شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com
پچھلے دو عشروں سے ملکی حالات کچھ ایسے رخ چلے کہ خاص و عام صبر کی بیش قیمت نعمت سے محروم ہوگیا۔یہ مجھ اکیلے کا ہی نہیں بلکہ آپ کا بھی مشاہدہ ہو گا! اپنے گردو پیش، گھروں، گلی محلّوں، آس پڑوس، بازاروں، سنیماو¿ں، ریلو ے اسٹیشنوں وغیرہ جہاں دیکھئے وہیں نظر آتا ہے۔کبھی ہم خود بھی جذبات کی رو میں بہتے ہوئے اس کے فریق بن جاتے ہیں۔اس فہرست میں ایک نام شامل نہیں وہ ہے سرکاری اسپتال اور خاص طور پر اس کا شعبہ ء ایمرجنسی یا شعبہء حادثات۔نام ہی ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں ہنگامی صورتِ حال والے مریض لائے جاتے ہوں گے۔ بجلی، گیس، پانی، مختلف سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کے ستائے ہوئے عوام کا اصل امتحان یہی سرکاری اسپتالوں کا شعبہ ءایمرجنسی ہوتا ہے! عوام پولیس اور سرکاری افسران کاتو کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیوں کہ ان پر زور نہیں چلتا۔البتہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنا نزلہ سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی میں توڑ پھوڑ اور اسٹاف سے بے جا الجھنے میں گراتے ہیں! جب وہ اپنے کسی مریض کو سرکاری اسپتال کے شعبہ حادثات یا ایمرجنسی میں لاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ تمام تر عملہ صرف اِن کے مریض کی دیکھ بھال پر جت جائے۔حالاں کہ یہاں ان کے مریض کی طرح یا اس سے زیادہ تشویش ناک حالت میں کتنے مزید مریض موجود ہیں، وہ یہ بات نہیں سوچتے! مریض کی حالت بہت خراب تھی تب ہی تو ایمرجنسی میں لایا گیا۔ اب اگر اس کا وقت پورا ہو گیا تو اسپتال کی توڑ پھوڑ اور عملے پر تشدد بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ایسی خبریں جب اخبارات میں شائع ہوتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کاش کہ عوام اس سخت گھڑی اپنے صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دیں!! اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی جانب آتا ہوں۔پچھلے دنوں میرے سوا سالہ نواسے کو لاہور میں واقع سرکاری اسپتال ’ سر گنگا رام اسپتال ‘ کی بچوں کی ایمرجنسی میں لے جانا پڑا۔ہم وہاں تقریباً سوا ایک بجے دِن پہنچے اور رات دس بجے واپسی ہوئی۔میں نے خود وہاں کے ڈاکٹروں، نرسوں، ٹیکنیشن، پرچی بنانے والوں، اور بلا شبہ تمام اسٹاف کو کام کرتے دیکھا۔ ایمر جنسی میں پہلے ہی ایک پندرہ ماہ کی بچی کو اس کے گھر والے بہت تشویشناک حالت میں لائے ہوئے تھے۔ میں تو اندر نہیں تھا لیکن وہاں سے اسٹاف اور خود بچی کے عزیز آ جا رہے تھے۔ بچی کے اندرونی اعضائ کام چھوڑ رہے تھے۔چار گھنٹے ڈاکڑوں نے جان بچانے کی ہر طرح کوشش کر ڈالی لیکن ناکام رہے۔اسی دوران یہاں اور بھی بچے آ رہے تھے۔ پرچیاں بن رہی تھیں اور صفائی کا عملہ مستعدی سے اپنا کام کر رہا تھا۔اس خاکسار نے مجموعی طور پر بچوں کی اس ایمر جنسی کے عملے کا جو مشاہدہ کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ ہمارے ہاں ہر ایک چیز پر صرف تنقید ہی کی جاتی ہے۔اِن نو گھنٹوں میں، میں نے ڈاکٹروں کو ایمرجنسی سے باہر آتے نہیں دیکھا۔ یہی حال نرسوں کا تھا۔ حتیٰ کہ باہر کونٹر میں پرچی بنانے والی خاتون، صفائی کا عملہ، اور دیگر اسٹاف کو فالتو
بیٹھے، سستاتے، چائے پیتے یا گپیں ہانکتے نہیں دیکھا۔ بے شک تشویشناک حالت میں لائے گئے مریض، ڈاکٹروں اور ایمرجنسی کے عملہ کے ہاتھوں اللہ کے ’ اذن ‘ سے بہتر ہوتے ہیں لیکن کبھی اللہ کی مشیت ان کے اچھا نہ ہونے میں ہو تو بسا اوقات عوام وہ کر ڈالتی ہے جس کا انہیں بعد میں خود بھی افسوس ہوتا ہو گا! میری موجودگی میں ایک چھوٹی بچی زندگی کی بازی ہار گئی۔اس بچی کے ماں باپ اور آئے ہوئے عزیزوں پر کیا قامت بیتی ہو گی!! ایک اور بے حد نازک صورتِ حال اندر درپیش تھی۔ بیسیوں نسبتاً کم سنگین کیس الگ تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ شعبہ ایمرجنسی کے ڈاکٹر صبح آٹھ بجے سے اگلی صبح آٹھ بجے تک چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں کے شعبہ ئ حادثات کے ڈاکٹروں کی ڈیوٹی بھی چوبیس گھنٹے ہی ہوتی ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ سرکاری اسپتال میں مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اب سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات /بچوں کی ایمرجنسی وغیرہ میں ڈاکٹر اور طبی عملہ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کیوں دیتا ہے؟ مجھے علم نہیں!! لیکن کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں۔مثلاََ یہ کہ شعبہ ئ ایمرجنسی میں ڈاکٹروں سے چوبیس گھنٹے کام لینے میں کیا مصلحت ہے؟ کیا طِب کے علاوہ کسی اور شعبے کے افراد بھی چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں؟ وہ بھی اتنا نازک ترین کام!! میں تو اسے موت کے جبڑوں سے زندگی چھین لانے کا کام کہوں گا!! کیا چوبیس گھنٹے کام لینا ڈاکٹروں کے ساتھ زیادتی نہیں؟ کیا ہمارے ہاں ڈاکٹروں کی کمی واقع ہو گئی ہے یا ایک بڑی تعداد ملک سے نقلِ مکانی کر گئی ہے؟ کیا صوبائی اور مرکزی وزارتِ صحت کے ذمہ داران، شعبہئ حادثات میں ڈاکٹروں کے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کو جانتے ہیں؟ اگر ہاں میں جواب ہے تو پھر اس کا تدارک کیوں نہیں کرتے؟ بچوں کی ایمرجنسی میں خواتین ڈاکٹر بھی تھیں ان کی بھی تو گھریلو ذمہ داریاں ہوتی ہوں گی؟ ایمان داری سے کہتا ہوں کہ مجھے تو سر گنگا رام اسپتال کے بچوں کی ایمر جنسی میں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکل اسٹاف، ٹیکنیشن، صفائی کے عملے اور تمام ہی شفٹ کے یوں کام کرنے پر رشک آیا۔کیا یہ اکیلے میں نے ہی دیکھا؟ نہیں نہیں!! ایک عالم نے دیکھا! ڈاکٹروں کی ان چھوٹے بچوں کی زندگیاں بچانے کی ان تھک کوشش کرنا جو بولنا یا اپنا آپ سمجھانا ہی نہیں جانتے، زبردست اور قابلِ تحسین کام ہے۔نہایت افسوس اور شرمندگی سے لکھنا پڑتا ہے کہ بجائے تعریف کے دو بول کہنے کے الٹا اِن پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے سرکاری اسپتالوں کے شعبہء حادثات کا طبی عملہ اسی طرح کا ہو گا۔ میں نے ملک کے بعض نامور تخلیق کاروں کی جوتیاں سیدھی کی ہیں لہٰذا وثوق سے کہتا ہوں کہ جو کام تروتاذہ ذہن سے کیا جائے وہ خوب تر ہوتا ہے۔تو پھر کتنا اچھا ہو کہ شعبہء امرجنسی کے ڈاکٹر بھی دیگر سرکاری محکموں کی طرح آٹھ گھنٹے کی شفٹ کریں !!
نوٹ:
یہ تحریر 26 اکتوبر 2021 کو نوائے وقت اسلام آباد سے شائع ہوئی۔افسوس کہ اب 2024 میں بھی معمولی باتوں پر اسپتالوں میں ٹوڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ ایمرجنسی اسٹاف کے لئے کوئی تعریف کے دو بول نہیں کہتا! میرا اس وقت کا مشاہدہ آج بھی سر گنگارام اسپتال کے بچوں کی ایمر جنسی میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے!