حضور نبی کریم ﷺ کی جب ولادت باسعادت ہوئی تو آپ کے دادا جان حضرت عبد المطلب نے آپ کا نام محمد رکھا ہے اس سے پہلے یہ نام عرب میں کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے اسم محمد کی تشریح کرتے ہو ئے پیر محمد کرم شاہ الازھری لکھتے ہیں کہ احل لغت کے نزدیک جو ہستی تمام صفاتِ خیر کی جامع ہو اسے محمد کہتے ہیں۔
امام ابو زھرہ اسم محمد کی تشریح کے مطابق محمد کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ ذات جس کی بصورت استمرار ہر لمحہ ہر گھڑی تعریف و ثنا کی جائے۔
علامہ سہیلی لکھتے ہیں لغت میں محمد اس کو کہتے ہیں جس کی بار بار تعریف کی جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اسی طرح آپ کا اسم گرامی بھی تمام انبیاء اور تمام مخلوق کے ناموں کا سردار ہے۔ جس طرح لفظ اللہ کا ہر ہر حرف با معنی ہے اسی طرح نام محمد کا ہرہر حرف بامعنی ہے۔ اسم ذات اللہ کے شروع سے پہلا حرف ہٹا دیں تو للہ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں اللہ کے لیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ”للہ ما فی السموت وما فی الارض“ یعنی اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے۔
اسی طرح پہلا ل ہٹا دیا جائے تو ”لہ“ رہ جاتا ہے۔”لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر “ یعنی اسی کے لیے بادشاہت اور اسی کے لیے حمدو ستائش اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔
اسی طرح لفظ محمد میں بھی اگرپہلی میم کو ہٹا دیا جائے تو حمد رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں تعریف کرنا۔ اگر ’ح‘ ہٹا دیا جائے تو رہ جاتا ہے ممد جس کے معنی ہیں مدد کرنے والا۔ اور اگر میم اور ح دونوں بھی ہٹا دیے جائیں تو رہ جاتا ہے ”مد“ جس کے معنی ہیں دراز اور بلند یہ حضور نبی کریمﷺ کی عظمت و رفعت کی طرف اشارہ ہے۔ اور اگر دوسرا میم بھی ہٹا دیا جائے تو رہ جاتی ہے ’د‘ جس کا مفہوم ہے دلالت کرنے والا یعنی اسم محمد کی وحدانیت پر دال ہے۔ ( سیرة الرسول )
اسم کو اپنے مسمی کی صفات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ مگر زیادہ تر اس کے الٹ ہی ہوتا ہے۔ بہت کم ہی بعض اوصاف میں تناسب ملتا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی انسان کا وہ نام رکھا گیا ہو جو اس کی تمام زندگی کاآئینہ دار ہو۔ لیکن اسم محمد اس سے مستثنی ہے۔ اس مبارک نام کی عظمتیں جہاں جمع ہوتی ہیں اور اس نام کا مظہر اتم اور محل کامل ہے۔ اسی کا نام ہی تو ذات پاک محمد ﷺ ہے۔ اس ذات کی بے شمار عظمتوں کو ایک نام سے موسوم کرنے کا ذریعہ اسم محمد ﷺہے۔