شاکرہ سے وجیہہ سواتی، اب زارا

Nov 23, 2024

فضل حسین اعوان

سیالکوٹ میں کچھ عرصے کے دوران چار ایسے واقعات ہوئے جو عالمی سطح پر بھی میڈیا میں نمایاں رہے۔زارا کی ساس نند اور دیگر سسرالیوں کے ہاتھوں المناک موت لرزا کے رکھ دیتی ہے۔ ان لوگوں نے کیسے ایسا حوصلہ پایا کہ نعش کے ٹکڑے کر دیئے۔ کیایہ نفرت کی انتہا تھی یا نعش کو آسانی سے ٹھکانے لگانے کے لیے یہ بھیانک اقدام کیا گیا۔ اور پھر چہرے کو جلانے کی ہمت کیسے ہوئی۔ سفاکیت اور بربریت نظر آتی ہے۔ بس کلیجہ نکال کر چبانے کی کسر رہ گئی تھی۔عدل کا اونٹ دیکھیے کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
سیالکوٹ ہی میں2010ءمیں دونوجوان بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر بدترین تشدد کر کے مار ڈالا گیا۔ ان کی نعشیں الٹی لٹکا دی گئیں۔ تحقیقات پر پتہ چلا 18سالہ منیب اور15سال کا مغیث بے قصور تھے۔یہ ایک شریف خاندان کے ہونہار بچے تھے۔13ملزموں کی نشاندہی ہوئی سات کو سزائے موت اور6کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ہائیکورٹ نے سزا برقرار رکھی ،جسٹس سردار آصف سعید کھوسہ کی سپریم کورٹ نے سب کی سزا دس دس سال کر دی۔ اب یہ سارے اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
4ججوں کو سیالکوٹ جیل کے معائنے کے دوران قیدیوں نے یرغمال بنایا۔ اناڑی انتظامیہ نے مقابلے میں چھ بائیکرز اور4جج مارے ڈالے۔ 25افراد کو اس معاملے میں موردِ الزام ٹھہرا کر انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ ان میں سے23 بے قصور ٹھہرے۔2 کو35سال فی کس کے حساب سے سزا سنا دی گئی۔سزا پانے والے اسٹنٹ سپرٹنڈنٹ جیل راجہ مشتاق مشقت لینے والی فیکٹری کے انچارج تھے جبکہ وارڈن عبدالحفیظ بھی اسی فیکٹری میں تعینات تھے۔ عدالت نے کہا کہ ملزمان ان کی تحویل میں تھے اور انہی کی وجہ سے بیرک سے باہر آئے تھے۔یہ سزا 2006ءمیں سنائی گئی تھی۔ 2013ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے ان دو کو بھی بری کر دیا۔
تین دسمبر2021ءکو سری لنکن پریانتھا دیا وادانا کو سیالکوٹ میں اکساوے میں آئے لوگوں نے تشدد کر کے مار ڈالاتھا۔ پریانتھا فیکٹری مینیجر تھے۔ اپنی خار میں کسی نے توہین مذہب کا الزام لگایا اور ہجوم ان پر پل پڑا۔ابتدائی طورپر13ملزموں کو مرکزی ملزم قرار دے کر118کو گرفتار کیا گیا۔ بعد میں تحقیقات میں پتہ چلا کہ الزامات بے بنیاد تھے مگر اس کی موت اور پاکستان کی دنیا بھر میں ہونے والی سبکی کا مداوا ممکن نہیں تھا۔ اس کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے6افراد کو سزائے موت، نو کوعمر قید اور 72کو دو دو سال قید کی سزا سنائی۔ کورٹ نے ایک ملزم کو بری کر دیا تھا۔فیصلہ 18اپریل 2022ءکو سنایا۔ملزم ہائیکورٹ گئے وہاں اپیل کب لگے گی ؟ پھر معاملہ سپریم کورٹ جائے گا۔
ظاہر جعفر نے، جسے امریکی شہری ہونے کا گھمنڈ تھا۔ اپنی دوست نور مقدم کو گھر بلا کر گلا کاٹ کر مار ڈالا تھا۔ اسے بھی فروری2022ءمیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ اسے یقین ہے کہ امریکہ اسے ریمنڈ ڈیوس کی طرح نکلوا کر لے جائے گا۔ یہ سر دست کال کوٹھڑی میں بند ہے۔
ایک اور قیدی اپنی موت کا منتظر ہے۔اس نے اپنی اہلیہ کو ہلاک کر کے نعش شہر سے گاو¿ں لے جا کر کمرے میں گڑھا کھود کر پھینکی۔ گڑھا پ±ر کیا اوپر فرش بنوادیا۔وجیہہ سواتی گرین کارڈ ہولڈر تھی۔ اس کے خاوند رضوان حبیب نے ساتھیوں کی مدد سے اسے ڈی ایچ اے پنڈی میں ہلاک کیا۔بد قسمتی اسے چار دن کے لیے پاکستان لائی تھی۔ خاوند نےاس کے لاپتہ ہونے کی ڈرامہ بازی کی۔ یہ مرڈر بیوی کی جائیداد ہتھیانے کے لیے کیا گیا۔ پنڈی سے لاش کو لکی مروت لے جا کے اپنے ملازم کے گھر کے کمرے میں دبا کر فرش پکا کر دیا۔ یہی علاقہ قاتل کی پہلی بیوی کا بھی ہے۔ ڈیڑھ ماہ بعد پولیس نے قتل ٹریس کر لیا۔ رضوان حبیب کو موت جبکہ دو ساتھیوں کو سات سال قید سزا سنائی گئی۔
شاکرہ خلیلی کا نام کچھ لوگوں کے لیے شاید نیا ہو۔ انڈیا میں اس کیس نے بڑی شہرت پائی۔ دنیا میں اس سے بڑی شقی القلب، بے رحم اور سنگدل کی کہانی کم کم ہی نظر آتی ہے۔ یہ مسلمان خاتون 6ارب روپے جائیداد کی 80ءکی دہائی میں مالکہ تھی۔ اس کے خاوند اکبر خلیلی فارن سروس میں تھے۔ آسٹریلیا اور ایران میں سفیر رہے۔ شاکرہ اور اکبر کی چار بیٹیاں تھیں۔ انہیں بیٹے کی بڑی خواہش تھی۔ ان کی ملاقات شردھانند سے ہوتی ہے۔ جو دوستی اور بعد ازاں شادی میں بدل گئی۔ شردھانند جنتر منتر میں درک رکھتا تھا۔ اس نے باور کرایا کہ ہم شادی کریں تو ہمارے ہاں بیٹا ضرور پیدا ہوگا۔ شردھا نند کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں تھے۔شردھا نند شاکرہ کے بڑے گھر میں شفٹ ہو گیا۔ جائیداد پر اسکی نظرتھی۔ شاکرہ اپنی بیٹیوں میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتی تھی۔ سوامی کو یہ سب پسند نہ آیا توانہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔راستے سے ہٹا کر اس نے بھی ان کی بیٹیوں اور ماں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ کہیں چلی گئی ہے۔ اس نے کیسے شاکرہ کو راستے سے ہٹایا یہ بڑی ہولناک داستان ہے۔ اس نے نوکروں کو چھٹی کرا کے شاکرہ کو چائے میں بے ہوشی والی دوا ملا کر پلا دی۔ بے ہوش ہونے پر گد ے میں لپیٹ کرزندہ تابوت میں رکھا اور گھر کے لان میں گڑھے میں دھکیل کر مٹی سے گڑھا بھر دیا۔اس کے اوپر مہنگے ترین ماربل سے فرش بنوایا اور اس پر ڈانس پارٹی کا اہتمام کیا۔ اس جگہ تین سال تک روزانہ رات کو ڈانس ہوتا رہا۔ ایک کونے میں شراب نوشی کیلئے بار بھی بنائی گئی تھی۔شاکرا کی بیٹی صبا نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی طویل عرصہ تحقیقات ہوتی رہیں۔ صبا کو یقین تھا شردھانند ہی مجرم ہے مگر پولیس کو ثبوت نہیں مل رہے تھے۔ جس روز کیس داخل دفتر ہونا تھا۔دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا۔ سوامی کے سابق ملازم کے منہ سے نشے میں سچ نکل گیا۔
ڈانسنگ فلور کو اکھاڑا گیا۔ تابوت سے نعش مل گئی۔ تابوت کے اندر دائیں بائیں لکڑی کے تختوں پر ناخنوں کے کھرچنے کے سیکڑوں نشانات پائے گئے۔ انڈیا میں پہلی مرتبہ کرائم سین کی مکمل ویڈیو بنائی گئی۔ 2005ءمیں شردھا نند کو سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی۔ ہائیکورٹ نے سزا برقرار رکھی۔ سپریم کورٹ نے موت کو عمر قید کی سزا میں بدل دیا۔اس کیس کو ڈانسگ اون گریو یارڈ کا نام دیا گیا۔
دوسال قبل راجیو گاندھی کے قتل کے تمام ملزموں کو مقتول کی اہلیہ سونیا گاندھی کی درخواست پررہا کر دیا گیا تو شردھانند نے بھی اپنی رہائی کی درخواست دے دی جو یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ آئندہ ایسی درخواست دی تو سزائے موت بحال کر دی جائے گی۔ شربھانند کی عمر اب82سال ہے۔وہ کئی بیماریوں کا شکار ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس نے رہائی کے لیے ایک اور درخواست حالیہ دنوں مرکزی اور صوبائی حکومت کے سامنے رکھی ہے۔

مزیدخبریں