اسلام آباد (آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اقلیتی نمائندوں کا الیکشن اقلیتوں تک محدود کرنے کی درخواست خارج کردی۔ وکیل جے سالک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے صرف نمائندے ہیں، اقلیتوں کو اپنے ووٹ سے اپنے نمائندہ منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ لفظ اقلیت درست نہیں، اقلیت کی جگہ نان مسلم کہا جائے، نان مسلم بھی برابر کے شہری اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق میں شہریوں کا لفظ لکھا ہے، نان مسلم بھی شہری ہی ہیں۔ علاوہ ازیں آئینی بینچ نے وفاقی حکومت سے بدین میں نئی گج ڈیم منصوبے میں تاخیر اور لاگت سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ نئی گج ڈیم منصوبہ اب تک مکمل کیوں نہیں ہوا۔ جس پر کنسٹرکشن کنسورشیم کے وکیل نے بتایا کہ منصوبے کے حوالے سے طے کردہ فنڈز جاری نہیں کیے جا رہے، جسٹس جمال نے کہا حکومت اپنا کام کیوں نہیں کررہی، حکومت اپنا کام نہیں کرتی جس کی وجہ ہم پر بوجھ آتا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ فنڈز ہوں تو منصوبہ بروقت مکمل ہوسکتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ یہ منصوبہ تو دو سال میں مکمل ہونا تھا، کنسٹرکشن کنسورشیم کے وکیل نے بتایا کہ 30 ارب روپے مالیت کے منصوبے کی لاگت اب 100 ارب تک پہنچ جائے گی۔ جسٹس جمال نے کہا کہ معاہدے پر عمل نہیں ہوتا، پھر نئے ریٹس مانگے جاتے ہیں، عدالت کو مشاورت کے بعد منصوبہ کی حتمی تاریخ اور بجٹ تفصیل فراہم کریں۔ آئینی بینچ نے اکتوبر 2005 زلزلہ متاثرین کیس میں حکومتوں سے پراگرس رپورٹ طلب کر لی۔ آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے متاثرین آباد کاری اور منصوبوں کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ 2005 کا زلزلہ آئے 19 سال گزر چکے ہیں، اتنے عرصہ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو چکے ہوں گے، بتائیں حکام نے متاثرین کی بحالی کے لیے اب تک کیا کام کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ زلزلے کے بعد گھروں کی تعمیر کے لیے جنگلات زمین کیوں الاٹ کی گئی، زلزلے سے جہاں گھر گر گئے وہیں دوبارہ تعمیر کر دیتے، حکومت تعمیرات کے چکر میں پڑنے کے بجائے متاثرین کو رقم دے دیتی، متاثرین کو رقم ملتی وہ اب تک اپنے گھر خود بنا چکے ہوتے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی تباہیاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ زلزلہ متاثرین کی بحالی وفاق اور صوبے کے تعاون سے ہونی تھی، محکموں کی بیڈ گورننس اور عدم تعاون سے متاثرین مشکلات جھیل رہے ہیں۔ بیڈ گورننس کی وجہ سے معاملات عدالتوں میں آتے ہیں، محکمے اپنا کام کریں تو عدالتوں میں کیسز نہ آئے۔ جسٹس امین نے ریمارکس دئیے کہ متاثرین کے لیے کتنے فنڈز آئے اور فنڈز میں کتنا کہاں پر خرچ ہوا، عدالتی سوالات پر جامع رپورٹ دی جائے۔ آئینی بینچ نے جنگلات کی کٹائی کیس میں وفاقی صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرلی۔آئینی بینچ نے رپورٹ میں پوچھا ہے کہ بتایا جائے جنگلات کے کتنے رقبہ پر قبضہ کیا گیا اور بتایا جائے جنگلات کے کتنے رقبہ پر قبضہ واگزار کرایا گیا۔