آسٹریلیا میں 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کی پابندی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مجوزہ قانون کے تحت اگر سوشل میڈیا کمپنیوں نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کئے تو اِن کمپنیوں پر تقریباً 32.5 ملین امریکی ڈالرز تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق پابندی ایکس، ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لاگو ہوگی۔
پارلیمنٹ میں بل منظور ہونے کی صورت میں یہ قانون ایک سال کے اندر نافذ العمل ہوگا۔
اس سے قبل وزیر اعظم نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ”سوشل میڈیا ہمارے بچوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور میں اس پر وقت مانگ رہا ہوں۔“
انھوں نے سوشل میڈیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو لاحق خطرات کا حوالہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر لڑکیوں کو ان کی تصاویر کی نقصان دہ عکاسی اور لڑکوں کی جانب سے زن بیزار کمنٹس سے خطرات لاحق ہیں۔
انھوں نے کہا کہ چودہ سالہ عمر کے بچے اگر اس طرح کی نقصان دہ چیزیں حاصل کر رہے ہیں تو یہ تشویش ناک بات ہے، کیوں کہ اس عمر میں وہ زندگی کی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے خیالات پختگی حاصل کرتے ہیں، چناں چہ اس مشکل وقت میں انھیں سننا اور عمل کرنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ بہت سے ممالک نے پہلے ہی قانون سازی کے ذریعے بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کو روکنے کا عزم کیا ہے، تاہم آسٹریلیا کی پالیسی سب سے سخت ہے۔ ابھی تک کسی بھی ملک نے عمر کی توثیق کے کے لیے بائیو میٹرکس یا حکومتی شناخت کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، آسٹریلیا ان دونوں طریقوں کی آزمائش کر رہا ہے۔
یہاں کی تجاویز دنیا کی پہلی تجاویز ہیں جن میں سب سے زیادہ عمر کی حد مقرر کی گئی ہے، یعنی 16 سال، اور ان میں نہ تو والدین کی رضامندی کے لیے کوئی چھوٹ دی گئی ہے، نہ ہی پہلے سے موجود اکاؤنٹس کے لیے کوئی چھوٹ ہوگی۔