اس حقیقت کو صدقِ دل اور دیانتداری سے قبول کر لینا چاہئے کہ پاکستان میں زبردست انتشار، اختلاف، عدم اتحاد اور افراتفری کی فضا میں اگر پورے پاکستان کے عوام، خاص طور پر نوجوانوں میں کوئی شے وطن عزیز کی محبت، یگانگت اور قومی یکجہتی کے حوالے سے باقی بچی ہے تو وہ کرکٹ ہے۔ حکمران، سیاستدان، مذہبی رہنما سب کے سب قوم کو یکجا اور متحد کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم اس مضمون میں ان کی ناکامی کے اسباب بیان کرنے سے قاصر ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ کرکٹ قوم کو یکجا کر دیتی ہے۔ حیرت اور شرمندگی کی بات ہے کہ ہم پاکستان میں کرکٹ کے بڑے مقابلے بھی منعقد نہیں کر سکتے۔ انڈیا کسی صورت آنے پر آمادہ نہیں ہے۔ سری لنکا کی ٹیم آ ئی تو دہشت گردی کی زد میں آ گئی، بنگلہ دیش کی ٹیم منت سماجت کے باجود آنے سے معذرت کر دیتی ہے۔ یہ ہے ہمارا پیارا ملک پاکستان، اس کا کیا حلیہ ہم نے بنا دیا ہے۔ ٹی 20 ورلڈ کپ میں قوم نے بھارت کی ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی ذلت آمیز شکست قبول کر لی مگر جب سیمی فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں قومی ٹیم ڈھیر ہو گئی تو پاکستان میں مایوسیوں کے بادل چھا گئے۔ قوم کی دعائیں بے اثر ہو گئیں اور پاکستان کی ٹیم نے قوم کی امیدوں کا جنازہ نکال دیا۔ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ دعو¶ں کے باوجود کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکاءاشرف ڈسپلن، حوصلے، مردانگی، ہمیت اور استقامت کی حامل ایک قومی کرکٹ ٹیم فراہم کرنے میں یکسر ناکام ہو گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ذکاءاشرف سمیت کوئی بھی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی ہماری خامی اور خرابی ہے کہ ہم کسی صورت احتساب کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ آخر دیکھنا تو چاہئے کہ کس نے کہاں غلطی کی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم ملک اور پوری قوم کی رسوائی کا سبب بنی ہے مگر نہ کوئی شکست کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار ہے نہ اسباب اور وجوہات کے ذکر پر آمادہ ہے، نہ کرکٹ بورڈ نہ کوچ، نہ سلیکشن کمیٹی نہ کپتان۔ ساری قوم اس جگ ہنسائی پر مضطرب ہے، بے چین اور پریشان ہے۔ ہر ذمہ دار لوگوں میں کسی کو رتی برابر پشیمانی نہیں ہے اور یہی ہماری تباہی اور بربادی کا اصل سبب ہے۔ جس کرکٹ بورڈ نے 70 کروڑ روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا اس کی قومی ٹیم کی حالت زار کئی سوالات، کارکردگی اور ڈسپلن کے حوالے سے زیر بحث ہے۔ کپتان محمد حفیظ شکست کو قبول تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، عبدالرزاق کو ٹیم میں شامل نہ کرنے کی وجہ بتانے کو تیار ہیں نہ اس سوال کا کوئی جواب دے رہے ہیں کہ مسلسل ”زیرو“ کے باوجود شاہد آفریدی کو کیوں آزمایا گیا۔ اصل وجہ ”سفارش“ ہے۔ جب ہم ”سفارش“ پر انحصار کریں گے تو ذلت آمیز شکست ہی ہمارا مقدر بنے گی۔
پاکستان میں مختلف شہروں میں بڑی سکرین لگا کر میچ کو دیکھا گیا۔ عوام کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ سپریم کورٹ میں بڑی سکرین لگائی گئی۔ چیف جسٹس خود میچ دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہر جگہ لوگ کرکٹ ٹیم کے لئے دعاگو تھے مگر محض دعا¶ں سے تو کام نہیں چلتا، کارکردگی بھی ضروری ہے۔ سیمی فائنل میں 139 رنز کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم 123 رنز سکور کر سکی۔ آخری اوور میں عمر گل نے فیاضی سے 16 رنز دے دئیے۔ ٹیم کو شکست سے نوازنے میں اس اوور نے بنیادی کردار ادا کیا۔ کپتان حفیظ ٹی 20 کھیل رہے تھے یا پانچ روزہ ٹیسٹ میچ، اس سوال کا جواب ان پر قرض ہے۔ انہوں نے سُستی سے 42 رنز بنائے۔ شعیب ملک کو کب تک ثانیہ مرزا کی وجہ سے کھلایا جاتا رہے گا؟ اس شکست کے ہم خوذ ذمہ دار ہیں۔ ہماری ٹیم نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہم ہار گئے۔ ”خود کردہ را علاج بست“ قوم کے جذبات اور امنگوں سے مذاق کرنے والی ٹیم کا احتساب لازم ہے مگر کون کرے گا؟ کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں اس کا مظاہرہ اسی سٹیڈیم میں دوسرے روز ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے کیا۔ ویسٹ انڈیز نے چار وکٹ پر 205 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کے کپتان نے خراب فضا میں 63 رنز بنائے۔ حفیظ نہ اچھے کپتان ثابت ہوئے نہ اچھے اوپنر۔ اسد شفیق کو کیوں نہیں کھلایا گیا؟ کرکٹ بہادری، ٹیم ورک، حب الوطنی اور ڈسپلن کا کھیل ہے۔ یہ صفات ٹیم میں پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔