میں جب بھی امریکی صدارتی انتخابات سے قبل دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان ہونے والی تینوں ڈیبیٹ دیکھتا ہوں تو بہت متاثر ہوتا ہوں کیونکہ دونوں امیدواروں کا علم، تجربہ، انرجی ہر شعبہ زندگی پر گرفت اپنے نقطہ¿ عروج پر ہوتی ہے۔ دونوں امیدواروں کو ایک چھلنی سے گزارا جاتا ہے۔ جس سے امریکی عوام یہ جانچ لیتے ہیں کہ کونسا امیدوار دوسرے سے قدرے بہتر ہے اور کون اس قابل ہے کہ اسے اگلے چار سال کےلئے اپنے مستقبل کا امین بنا سکیں۔ یہ صدارتی امیدوار ہر میدان اور پھر شعبہ زندگی کے بنیادی اشاریوں سے واقف ہوتا ہے اور اچھا خاصا ایکسپرٹ ہوتا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے ان ڈیبیٹ کو جب بھی دیکھتا ہوں تو خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں بھی تمام رہنماﺅں کو اسی طرح ڈیبیٹ کے ذریعے پرکھا جانا چاہئے۔ جس طرح امریکی عوام اپنا مستقبل کسی کے حوالے کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح چھان پھٹک کر دیکھتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اپنے رہنماﺅں کی علمی اور عملی استعداد اور تجربہ ضرور پرکھنا چاہئے۔ ہم بعض اوقات اپنا مستقبل ان لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں جنہیں معمولی اور بنیادی قسم کی صلاحیت بھی حاصل نہیں ہوتی اور نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے جو کسی بھی ایسی صورتحال میں نکل سکتا ہے۔ ہم نے اپنی قومی زندگی میں امریکی اثرونفوذ کو ہمیشہ فروغ پذیر دیکھا ہے تو کیوں نہ ہم ان کی اچھی چیزیں بھی اختیار کر لیں۔ کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ امریکہ میں جو صدارتی نظام رائج ہے وہ ہمارے لئے موجودہ پارلیمانی نظام سے کہیں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارا موجودہ نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے ناکامیاں بھی اگلتا رہا ہے اور مستقبل ہی بھی کسی بہت بڑی بہتری کے امکانات مخدوش نظر آتے ہیں۔
عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں دراصل صدارتی نظام ہی زیادہ تر رائج رہا ہے اور ایک عجیب حقیقت ہے کہ جب بھی فوکس قصر صدارت پر زیادہ رہا ملک نے ترقی بھی کی اور استحکام بھی رہا۔ یہ حقیقت جمہوری دور میں بھی منکشف ہوئی اور وہ اس طرح کہ موجودہ حکومت کے پانچ سال بھی اگر پورے ہونگے تو اس میں بنیادی وجہ یہ ہو گی کہ کرسی صدارت مضبوط تھی اور حقیقت میں وہی کارساز تھی پارلیمانی اور نام نہاد جمہوری حکومت کا کردار تو صرف نمائشی ہی رہا ہے۔
نہ جانے کیوں ہمارے ہاں ویسٹ منسٹر سٹائل کا پارلیمانی نظام رائج کیا گیا کیونکہ ہمارے پاس تو اس کے بنیادی اجزا ہی نہ تھے جبکہ صدارتی نظام ہمارے قومی مزاج اور رویوں کے عین مطابق ہے۔ اسی پارلیمانی نظام کی غلطیوں اور ناکامیوں کا رونا روتے روتے ہر آمر نے شب خون مارا اور پاکستان کی تاریخ کو داغدار کر دیا۔ ہمارا مزاج مرکزیت پسند ہے اور ہم طاقت کے بہت زیادہ مراکز دیکھ کر لاقانونیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ صدیوں کی بادشاہتوں نے ہمارے مزاج پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔موجودہ پارلیمانی نظام جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے جنت ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جاگیروں اور اثرو رسوخ کو کامیابی سے بڑھاتے ہیں۔ صدارتی نظام کی شکل میں انہیں ایسا کرنے میں سخت ناکامی ہو گی اور ایک عام آدمی ان کے چنگل سے آسانی سے نکل سکے گا۔
صدر براہ راست منتخب ہونا چاہئے اور اس کی مدت صدارت چار سال ہونی چاہئے۔ انتخابات کی تاریخ پہلے سے طے شدہ ہو اور اسے آئینی تحفظ ہونا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ بھی براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہو تاکہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہو۔ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جانا چاہئے اور اس کےلئے انہیں ایک خاص شرح سے ووٹوں کے حصول کا پابند بنایا جائے۔
اس نظام میں صدر پارلیمانی نظام کے وزیراعظم کی نسبت کہیں زیادہ آزادی عمل انجوائے کرے گا اور اراکین اسمبلی سے بلیک میل بھی نہیں ہو گا۔ اس کے لئے ایک چھوٹی مگر انتہائی موثر کابینہ بنانا آسان تر ہو گا اور یہ بھی ممکن ہو گا کہ وہ جہاں سے چاہے غیر منتخب لوگوں کو بھی اپنی کابینہ میں شامل کر سکے بشرطیکہ وہ انتہائی قابل ہوں۔
صدارتی نظام کے ذریعے لوکل باڈیز کے نظام کو مضبوط اور موثر بنایا جا سکے گا جس کے ذریعے ایم این ایز اور سنیٹروں کو گلیوں اور نالیوں کے کاموں سے نکال کر قانون سازی کے ارفع کام پر لگایا جا سکے گا۔ پارلیمانی نظام کے ہوتے لوکل باڈیز کا نظام کبھی نہیں پنپ سکتا کیونکہ موجوہ ایم این ایز اور ایم پی ایز انہیں اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹو بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ صوبے بنا کر انہیں مضبوط بناتے ہوئے گرونر کے زیر کنٹرول دینا ہو گا جس کی اپنی صوبائی اسمبلی ہو گی۔ موجودہ نظام ہی ہم نے وزرائے اعلیٰ بھی رکھے ہوئے ہیں اور گورنر بھی جو کنفیوژن اور منفی نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ موجودہ نظام میں جس طرح ہم نے خواتین کی سیٹیں تو بڑھا دی ہیں مگر ان کے انتخابات کا طریقہ انتہائی بھونڈا ہے جس کی وجہ سے پارٹی سربراہ کی اشیر باد کے علاوہ کوئی خاتون رکن اسمبلی نہیں بن سکتی۔ اس کا نیا طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ حقدار خواتین کو ان کا حق مل سکے۔ قومی اسمبلی میں سیٹوں کے نظام کو بھی بہتر بنایا جائے۔ دنیا میں کسی اسمبلی میں اراکین اس طرح خوش گپیوں اور ٹانگوں پر ٹانگیں رکھ کر کرسیاں گھماتے ہوئے نہیں دیکھے جا سکتے جس طرح ہمارے ہاں ہے۔ اس میں سنجیدگی کے عنصر کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو کہ جہاں اپنے مستقبل کے محافظوں کو بغیر کسی جانچ پڑتال یا پیشہ ورانہ مہارت کے منتخب کیا جاتا ہوں جس طرح ہم کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رولز آف دی گیم کو سمجھیں اور وہ نظام متعارف کرائیں جو ہمارے مزاج اور رویوں کے عین مطابق ہو اور نتائج بھی دے سکے۔